ہمیں یہ واقعہ آج اس لئے یاد آیا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے ممبر شیخ علاﺅالدین نے ق لیگ سے ن لیگ میں جست لگانے کا جواز پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے قائداعظم نے بھی تو وفاداریاں بدل ڈالی تھیں۔ 1912ءمیں وہ کانگرس کے ممبر بنے 1913ءمیں انہوں نے مسلم لیگ میں بھی شمولیت اختیار کر لی اور بالاخر 1920ءمیں کانگرس سے رابطہ منقطع کر لیا۔ اس مثال سے شیخ صاحب دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے آپ کو قائداعظم کے بالمقابل لے آئے ہیں اور اپنی قلابازی کا تاریخی جواز پیش کر ڈالا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے چند ”مورخین“ کا ریفرنس بھی دیا ہے۔ جناب شیخ کو یہ بات ذہن نشین کرانے کی ضرورت ہے کہ محض تاریخ کا پڑھنا کافی نہیں ہوتا اس کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ آزادی کی تاریخ کے طالب علموں کو بھی اس بات سے آگاہی ہے کہ قائد نے کانگرس کیوں چھوڑی۔ انہوں نے ہندوﺅں کا ذہن پڑھ لیا تھا۔ ان کی روش سے بخوبی اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ مغربی جمہوریت کی آڑ میں مسلم قوم کو کچلنا چاہتے ہیں اور اس کا تشخص ختم کرنے پر تلے ہوئے اور اسی لئے کسی قسم کا آئینی تحفظ دینے سے گریزاں ہیں۔ جناب شیخ صاحب جن کا قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی سے پوچھا جا سکتا ہے کیا قائداعظم نے کانگرس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور پانچ سال تک ممبری کے مزے لوٹ کر مسلم لیگ جائن کی تھی؟ کیا ان کے معاشی سر پر حکومت وقت کا ڈنڈا لہرا رہا تھا جس سے انہیں مصلحت کوشی اختیار کرنا پڑی؟ قائداعظم تو ایک اسلامی ریاست کے لئے جدوجہد کر رہے تھے جو بالآخر پاکستان پر منتج ہوئی۔ شیخ صاحب کون سی اقلیم بنانا چاہتے ہیں؟ اگر پاکستان نہ بنتا تو ہم جیسے لوگ ہندوﺅں کی منشی گیری کر رہے ہوتے اور یہ موٹی توندوں اور ناٹے قدوں والے سرمایہ دار کوچہ املی شاہ میں چھابڑی لگا کر گول گپے بیچ رہے ہوتے۔ کفران نعمت اسی کو کہتے ہیں۔ اپنے کسی غلط یا صحیح اقدام کو جواز پیش کرنے کے لئے سینکڑوں دلیلیں دی جا سکتی ہیں یا ہزاروں بہانے تراشے جا سکتے ہیں۔ مسلم امہ کے جذبات سے کھیلنا غیر دانش مندانہ فعل ہے۔ فارسی زبان کا محاورہ ہے تا مرد سخن
نہ گفتہ باشد، عیب و ہنرش نہفتہ باشد (جب تک کوئی بولتا نہیں اس کے عیب و ہنر پوشیدہ رہتے ہیں)
وطن عزیز میں سیاست جس انداز میں کی جا رہی ہے یا جس مقام پر آ کھڑی ہوئی ہے اس میں سیاسی جوڑ توڑ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وفاداریاں مری کے موسم کی طرح بدلتی رہتی ہیں۔ مفاد پرستی سکہ رائج الوقت ہے۔ آج جو لوگ حکومت وقت کے گن گاتے ہیں انہیں ہم نے سابق وزیر اعلیٰ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز دیکھا ہے۔ وزیر اعلیٰ تو ”بڑا آدمی“ ہوتا ہے۔ یہ لوگ تو جنرل حسین مہدی کے در دولت پر بھی باقاعدگی سے حاضری دیتے تھے۔ن لیگ نے یونی فکیشن بلاک کو یہ کہہ کر کہ وہ لوگ سابق مسلم لیگی ہیں، اپنی بانہوں میں لے لیا ہے۔ صبح کا بھولا ہوا اگر شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بُھولا نہیں ”بھولا“ کہتے ہیں۔ یہ وہ لیگی ہیں جو مشرف کی سختیاں نہ برداشت کر سکے اور بامر مجبوری انہی کے ساتھ مل گئے۔ چلیں مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا ہو گا۔ یہ لوگ حکومت کے استحکام کا باعث بنے ہیں اور ظاہر ہے کہ اگلے الیکشن میں ٹکٹ بھی انہی کو ملے گا۔ پریشان کن بات صرف یہ ہے کہ ان سے ہارے ہوئے وہ لوگ جو نو سال تک ایک آمر کی سختیاں برداشت کرتے رہے لیکن ان کے قدم نہ ڈگمگائے۔ اس طویل دور ابتلا میں بھی انہوں نے میاں صاحب کی یاد کو اپنے سینے میں بسائے رکھا ان کا کیا بنے گا؟