چيف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی ميںسپریم کورٹ کے تين رکن بینچ نےاصغر خان کيس کی سماعت کی ۔ سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مہران بینک اور حبیب بینک کی رپورٹس گم ہوگئی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دونوں رپورٹس اہم ہيں،ان ميں يونس حبيب کی سرگرميوں کا ذکرہے انہيں نظر انداز نہيں کيا جاسکتا۔چيف جسٹس نےاٹارنی جنرل سے کہا کہ رپورٹس گم ہوگئی ہيں تو خود ہی اس کا کوئی بندوبست کرليں ۔ عدالت بہت سنجيدہ ہے، يہ عام معاملہ نہيں۔ جسٹس طارق پرويز نے ریمارکس دیئے کہ يہ رپورٹ عوامی اثاثہ تھیں، کيسے گم ہو گئیں ، جسٹس خلجی عارف نے استفسار کيا کہ رپورٹس کی گمشدگی کا ذمہ دار کون ہے؟رپورٹس دراصل اپنی جگہ موجود ہوں گی ، آپ چھپانا چاہ رہے ہيں،چيف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ آئی بی کے سربراہ کو عدالت بلائیں تاکہ وہ پنجاب حکومت گرانے کے ليےستائیس کروڑ روپے جاری کرنے سے متعلق وضاحت کريں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ يہ انیس سونوے کا دور نہيں ، تمام ايجنسيوں کو عزت کا خيال کرنا چاہيئے، انٹيلی جنس بيورو کے صوبائی بيورو بھی حکومت گرانے کے ليے کام کر رہے ہيں ، اٹارنی جنرل نے عدالت سے جواب داخل کرانے کے لیے پیر تک کی مہلت مانگی جس پرچيف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو پہلے بھی پندرہ دن ديئے گئے تھے۔آئی بی سربراہ کی ترديد يا وضاحت نہ آئی تو اخبار کی خبر کو درست سمجھا جائے گا، آئی بی کے سربراہ کو پوچھ کر بتائيں کہ پيسے کس کو ديئے گئے، جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے کہ ہاتھ وہ چھپاتا ہے جس کے ہاتھ گندے ہوتے ہيں۔