وزیراعظم کیخلاف توہین عدالت کی نئی کارروائی شروع ہو سکتی ہے‘ 16 اپریل کو مناسب حکم جاری کرینگے : خط لکھنے کا حکم حتمی ہے : سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) عدالت عظمیٰ میں این آر او عملدرآمد مقدمہ کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس اعجاز افضل نے کہا ہے کہ جب عدالت نے کہہ دیا ہے کہ خط لکھنا ہے تو یہ فیصلہ حتمی ہے، وزیراعظم اگر اب بھی حکم نہیں مانیں گے تو ان کے خلاف توہین عدالت کی نئی کارروائی شروع ہو سکتی ہے، سات رکنی خصوصی بنچ نے اس حوالے سے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سوئس حکام کو خط لکھنے کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر وزیراعظم کے خلاف 16 اپریل کو مناسب کارروائی کا حکم جاری کیا جائے گا۔ جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 7 رکنی بنچ نے ”این آر او عملدرآمد“ کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل سے عدالت کے سابق حکم کے مطابق عملدرآمد کے حوالے سے حکومت کی رپورٹ طلب کی تو اٹارنی جنرل نے رپورٹ پیش کرنے کی بجائے التوا کی ا ستدعا کرتے ہوئے م¶قف اختیار کیا کہ انہیں ہدایات ملی ہیں کہ چونکہ وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی جاری ہے جس میں دیکھا جا رہا ہے کہ سوئس حکام کو خط لکھنے کا معاملہ قابل عمل ہے یا نہیں اس لئے توہین عدالت کیس کے فیصلے تک این آر او پر عملدرآمد کے احکامات کو م¶خر کیا جائے۔ جس پر جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ یہ مختلف معاملہ ہے توہین عدالت کی کارروائی جاری رہنے سے وزیراعظم این آر او کیس پر عدالتی احکامات پر عملدرآمد کے احکامات سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عمل ہونا چاہئے، اگر وزیراعظم عمل نہیں کریں گے تو ان کے خلاف توہین عدالت کی ایک اور کارروائی شروع ہو جائے گی۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا عدالتی احکامات کی تشریح وزیراعظم یا سیکرٹری قانون کیا کریں گے؟ عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ اگر وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چل رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ این آر او کیس پر عملدرآمد اور سوئس حکام کو خط لکھنے کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو گئے ہیں لیکن چونکہ عملدرآمد کے حوالے سے رپورٹ عدالت میں نہیں پیش کی گئی اس لئے اب وزیراعظم کے خلاف مناسب حکم جاری کرنے کے لئے سماعت 16 اپریل تک ملتوی کی جاتی ہے۔ واضح رہے عدالت نے پچھلی سماعت پر توہین عدالت کی کارروائی کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کو بغیر کسی سے مشاورت کے عدالت کے حکم پر سوئس حکام کو خط لکھ کر عدالت کو آگاہ کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ ثناءنیوز کے مطابق جسٹس اطہر سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ این آر او فیصلے پر نظرثانی کی درخواست بھی مسترد ہو چکی ہے اس لئے خط لکھنے کا معاملہ اٹل ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی میں تو صرف یہ دیکھا جاتا ہے کہ وزیراعظم نے توہین عدالت کی ہے یا نہیں۔
سپریم کورٹ / این آر او کیس

ای پیپر دی نیشن