ضمیر کے سودے کی بات

نظام چلانے کیلئے شفاف الیکشن ضروری ہیں۔ حکومت کو کرپشن روکنے پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے : سپریم کورٹ ، کاغذات نامزدگی : حکومت سے کوئی بات نہیں ہو گی : الیکشن کمشنر پنجاب، اچھے لوگ نہیں آئیں گے تو نظام کیسے چلے گا؟ الیکشن کمشنر بلوچستان!یہ وہ خبریں اور وہ حالات ہیں جن میں ہمارے عام انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے۔ اس موضوع پر سوچتے سوچتے ذہن 1977ءکے انتخابات کی طرف چلا گیا جن میں حکومت کی طرف سے دھاندلی، جھرلو کے طور طریقے اپنائے گئے جس کے نتیجہ میں وطن عزیز میں ہمارے ذاتی ممدوح جنرل ضیاالحق کا طویل مارشل لا لگ گیا جو جنرل صاحب کا طیارہ فضا میں پھٹنے تک پوری طاقت سے نافذ رہا، پھر جنرل اسلم بیگ نے آرمی چیف بننے کے بعد وطن عزیز پاکستان میں انتخابات کے انعقاد کیلئے ماحول بنایا جس کے نتیجہ میں مرحومہ بے نظیر بھٹو کی حکومت آ گئی۔ جسٹس سجاد احمد جان 1977ءمیں ہونے والے عام انتخابات میں بالکل اسی طرح چیف الیکشن کمشنر تھے جس طرح جسٹس فخر الدین جی ابراہیم آج کے دنوں میں چیف الیکشن کمشنر کے طور پر بے اصولی، ہر دھاندلی متوقع جھرلو کے خلاف حسین کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں حالانکہ فخرو بھائی کے جاننے والے سمجھتے تھے کہ جب حکومت نے کوئی خلاف اصول کوئی خلاف ضابطہ بات کی تو جسٹس فخر الدین جی ابراہیم فوراً مستعفی ہو جائیں گے کہ ضمیر کے سودے کی بات ہو تو ماضی کی کئی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف ماضی میں کئی مرتبہ اصولوں کی خاطر مستعفی ہونے کا تجربہ رکھتے ہیں اور اس سلسلہ میں شاید ہیٹ ٹرک بھی کر چکے ہیں۔ خیر بات جسٹس سجاد احمد جان کی ہو رہی تھی کہ تب کے ہنگامی حالات میں پہلا قتل جسٹس سجاد احمد جان کا ہی تھا وہ اپنے بیڈ روم میں مُردہ حالت میں پائے گئے جو مبینہ طور پر گیس ہیٹر بند ہو جانے اور کمرے میں گیس بھر جانے کی وجہ سے دنیا سے چلے گئے مگر حالات کی وجہ سے چشم دید گواہان کسی اور کہانی کا ذکر کرتے ہیں۔ اس کے بعد جسٹس صاحب کے ایک صاحبزادے وسیم سجاد بھی سیاست اور وزارتوں میں آ گئے مگر اس ہونہار بیٹے کو کس کا خوف تھا کہ بے شک خود وزیر قانون ہی نہیں چیئرمین سینٹ اور قائمقام صدر بھی بنے مگر ہمیشہ احتیاط سے کام لیا، وجہ شاید یہ ہو کہ جناب وسیم سجاد جنرل ضیاالحق کے طیارے کے حادثے کے بعد اگلی حکومت میں اپنے آپ کو وزیر قانون سمجھتے ہوئے اسلام آباد میں اسمبلی ہال میں داخل ہوئے تو انہیں دیکھ کر ”سٹرینجر“ کے نعرے لگے۔ گویا کہا جا سکتا ہے :بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلےاسکے بعد جناب وسیم سجاد بے شک کئی مرتبہ وزیر قانون بنے مگر انہوں نے کبھی وکالت کو ترک نہیں کیا، ترک کرنا تو درکنار کمی بھی نہیں کی۔ جناب وسیم سجاد کا جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلم لیگ ہاﺅس لاہور میں آنا بھی یاد آ رہا ہے مگر موصوف وہاں مبصر کی حیثیت سے نہیں محض آبزرور کی حیثیت سے آئے، وجہ یہ تھی کہ جنرل پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ق) کی قیادت کو ان حالات میں ڈیوٹی پر مامور کر دیا تھا۔ بات دوسری طرف جا رہی ہے ، ہم نے تو چیف الیکشن کمشنر کے کام، اسکی راہ میں رکاوٹوں اور وزارتوں کا ذکر کرنا ہے کہ بقول انکے ”ہم نے تو بڑی خوبصورتی سے الیکشن کی دکان سجائی تھی اب اس پر ڈاکہ پڑ گیا تو ہمارا کیا قصور ہے؟“ چیئرمین الیکشن کمشن کا اس ڈاکے سے مراد یہ کہنا تھا کہ الیکشن میں پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی قیادت میں دھاندلی کر لی، یہ دھاندلی وہ ہے جس کا بھٹو مرحوم نے بھی اعتراف کر لیا تھا اور کافی نشستوں پر دوبارہ الیکشن کروانے پر بھی تیار تھے۔ مگر یہ تسلیم کرنے سے پہلے ملک میں کافی بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہہ چکا تھا قتل عام تک لوٹ مار اس طرح ہوئی تھی کہ 19 اپریل 1977ءکو پورے ملک میں سب کچھ رُک چکا تھا فوج کو ان حالات میں طلب کیا گیا تو فوجی جوان بھی ریڈ لائن عبور کرنے والے، جذبہ جہاد اور جذبہ شہادت سے سرشار جوانوں نے یہ کہہ کر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا کہ ان سے یہ ظلم نہیں ہو سکتا ۔ اب آج کے حالات کی طرف آتے ہیں کہ ہماری حکومت نے ان حالات میں لیت و لعل سے جھاکا دینے کا پروگرام ترک نہ کیا تو پھر باوقار محترم، قابل فخر چیف الیکشن کمشنر فخرو بھائی ان اوچھے ہتھکنڈوں کے خلاف ڈٹ جائیں کہ ڈٹنا نہیں خوب آتا ہے بقول شاعر : جب کبھی ضمیر کے سودے کی بات ہوڈٹ جاﺅ تم حسین کے انکار کی طرحآخر میں یہ بات بھی لکھ دینے میں کیا حرج ہے کہ وہ فوجی افسر جنہوں نے لاہور میں نیلا گنبد اور دوسرے مقامات پر ضمیر کے کہنے پر گولی چلانے سے انکار کیا تھا ان میں سے ایک ریٹائرڈ آرمی افسر اٹک شہر گُڑ کی آڑھت کر رہا ہے مگر پھر بھی وہ مطمئن ہے، پوری طرح مطمئن ہے! کہا جا سکتا ہے کہ ”اس نفسِ مطمنہ¿ نے نئی زندگی کا آغاز کر لیا ہے! 

ای پیپر دی نیشن