قصوری، سابق وزرائے خارجہ۔ آمنے سامنے!

پاکستان کے سابق وزیرِ خارجہ اور پاکستان تحریکِ انصاف کے ایک مرکزی راہنما، سردار آصف احمد علی کو، پاکستان تحریکِ انصاف نے این۔ اے 140(قصور) سے ٹکٹ نہیں دِیا، بلکہ اُس حلقے سے، ایک اور سابق وزیرِ خارجہ، میاں خورشید محمود قصوری کو اپنا امیدوار بنایا ہے،چنانچہ سردار صاحب نے اعلان کیا ہے کہ وہ ،اِس سیٹ پر آزاد حیثیت سے انتخاب لڑیں گے۔ سردار آصف احمد علی نے ۔ ”نوائے وقت“۔ لاہور کے سپیشل رپورٹر کو ٹیلی فون پر بتایا کہ۔”عمران خان نے مجھے، 5مرتبہ زبان دی تھی کہ وہ مجھے ہی اِس حلقے سے، ٹکٹ دیں گے، لیکن سرمایہ دار( خورشید قصوری)۔ جِیت گیا اور عمران خان نے ایک ایسے شخص کو ٹِکٹ دِیا ہے جِس نے، جنرل پرویز مشرف کے وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے، استنبول میں اسرائیلی وزیرِ خارجہ سے ملاقات کی تھی“۔ سردار صاحب نے یہ بھی کہا کہ۔ ”تحریکِ انصاف کی قیادت نے ،ضلع قصور کے سارے ٹکٹ، میاں خورشید محمود قصوری کے حوالے کر دئے ہیں، وہ جِسے چاہیں امیدوار نامزد کر دیں“۔گویا خورشید قصوری صاحب کو ،قصور میںٹکٹوں کا۔”ہول سیل ڈسٹری بیوٹر“۔ مقرر کر دیا گیا۔ سردار آصف احمد علی ،جہاں دیدہ شخص ہیں۔ مرد کا تو ایک بار زبان دینا ہی کافی ہوتا ہے۔ پھر جب عمران خان نے انہیں ٹکٹ دینے کے لئے دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں بار زبان دی تو، سردار صاحب کو سوچنا تو چاہیئے تھا کہ انہیں عمران خان نے پانچ بار زبان کیوں دی؟۔کیا عمران خان کو شک تھا کہ سردار صاحب، اُن کی ایک بار دی گئی زبان۔(وعدے)۔ پر اعتبار نہیں کریں گے؟۔ عمران خان اگر چاہتے تو خورشید قصوری صاحب کو این۔ اے 142سے ٹکٹ دے سکتے تھے، جہاں سے وہ 2002ءکے عام انتخابات میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر ،صدر جنرل پرویز مشرف کے زیرِ سایہ مسلم لیگ ق کی حکومت میں، 23نومبر 2002ءسے 15نومبر 2007ءتک، پاکستان کے 26ویں وزیرِ خارجہ رہے۔سردار آصف احمد علی، پاکستان کے 18ویں وزیرِ خارجہ رہے۔ گویا سردار صاحب ۔قصوری صاحب سے 8قدم آگے ہیں۔ قصور کے حلقہ این ۔اے 140سے سردار آصف احمد علی، 5بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہُوئے۔ ایک بار 2008ءکے عام انتخابات میں، انہوں نے اِسی حلقے سے میاں خورشید قصوری کو شکست دے دی تھی۔ عمران خان نے اِس پہلو پر غور نہیں کِیا۔ اگر سردار صاحب کو این اے حلقہ 140سے اور قصوری صاحب کو این۔ اے 142سے ٹکٹ دے دیا جاتا تو دونوں سابق وزرائے خارجہ۔عمران خان اور اُن کی پارٹی کے مفاد میں ایک دوسرے کو کامیاب کرانے کی کوشش بھی کر سکتے تھے اور شاید دونوں کامیاب بھی ہو جاتے۔ سیاست میں اِس طرح کے مواقع کئی بارآتے ہیں ،جب کسی پارٹی لیڈر کی قوتِ فیصلہ کا امتحان ہوتا ہے۔ دو تلواروں کو ایک میان میں تو نہیں رکھا جا سکتا، لیکن ایک تلوار کو میان میں اور دوسری کو میان سے باہر تو رکھا جا سکتا ہے،تا کہ فوری ضرورت کے لئے کام میں لایا جا سکے ۔پُرانے دور میں،ایک پِیر صاحب۔ اپنے مُریدوںکی محفل سجا کر بیٹھے ہُوئے تھے۔ ایک مُرید پِیر صاحب کی ٹانگیں دبا رہا تھا کہ، اتنے میں ایک شرابی جھومتا ہُوا، محفل میں در آیا۔ اُس نے پِیر صاحب کو سلام کِیا اور اُن کے ہاتھ بھی چُومے اور بولا!۔ ”پِیر صاحب!۔ آپ مجھے بھی اپنی ٹانگیں دبانے کا موقع دیں“۔ پِیر صاحب نے کہا۔ ”تم میرے بازُو دباﺅ“!۔شرابی نے پِیرصاحب کے بازو دبانا شروع کئے اورکچھ دیر بعد پوچھا۔ ”پِیر صاحب ! میں اچھا دباتا ہوں یا آپ کا یہ مُرید جو آپ کی ٹانگیں دبا رہا ہے؟“۔ پِیر صاحب نے مُسکراتے ہُوئے کہا۔ ”تم بازُو اچھے دباتے ہو اور میرا یہ مُرید، ٹانگیں اچھی دباتا ہے“۔پِیر صاحب نے دونوں کو خوش کر دیا، لیکن عمران خان اپنے دونوں ساتھی سابق وزرائے خارجہ کو ،خوش نہیں رکھ سکے۔ انہوں نے ایک کو خوش کرنے کے لئے، دوسرے کوناراض کرلِیا۔ اب سردار آصف احمد علی نے عمران خان کو، زبان دے کر مُکر نے والا اور وعدہ فراموش قرار دے کر، اُن کے نامزد کردہ امیدوار کے خلاف، انتخاب لڑنے کا چیلنج دے دیا ہے۔ ایک ضرب اُلمِثل ہے کہ ۔” آ بیل مجھے مار “۔ لیکن بعض سیانے کسی بیل کو کھِلا پِلا کر اور پیار کر کے ،اپنے مخالف کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں ۔” جا بیل اُسے مار“۔ لیکن اب تو تیر کمان سے نکل چکا ہے اور عمران خان نے ،اپنے انتخابی نشان۔” Bat “ ۔سے چھکّالگا کر سردار آصف احمد علی کو تحریکِ انصاف کے گراﺅنڈ سے آﺅٹ کر دیا ہے ۔سردار آصف احمد علی اور میاں خورشید محمود قصوری کا سیاسی بیک گراﺅنڈ مختلف ہے۔ سردار آصف احمد علی کے چچا، سردار محمد حسین ، تحریکِ پاکستان کے کارکن تھے ۔قیامِ پاکستان سے قبل اور بعد میں بھی اسمبلیوں کے رکن رہے اور سنٹرل پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم لیڈر۔ سردار محمد حسین نے انگریز سرکار کی سرپرستی میں قائم ہونے والی Unionist Party کا بڑی پا مردی سے مقابلہ کیا اور اپنے آبائی گاﺅں، گنجا کالا کے قریب، قصور میں آ ل انڈیا مسلم لیگ کا بہت بڑاجلسہءعام کرایاتھا، جب کہ میاں خورشید محمود قصوری کے دادا ،مولوی عبدالقادر قصوری۔ پنجاب میں انڈین نیشنل کانگریس کے اہم لیڈر تھے اور اُن کے (خورشید صاحب کے)۔ والد میاں محمود علی قصوری 1940ءتک کانگریس میں رہے۔سردار آصف احمد علی (چودھری حامد ناصر چٹھہ کی قیادت میں) مسلم لیگ جونیجو میں تھے۔ مسلم لیگ جونیجو ۔(محترمہ بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دور میں)۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی اتحادی تھی، جب محترمہ نے، سردار صاحب کو وزیرِ خارجہ بنایا۔ 26مئی 1995ءکو قصور میں، ایک جلسہءعام سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ۔ ”مجھے وزیرِ خارجہ سردار آصف علی پر فخر ہے۔ یہ ہر وقت ہوائی جہاز میں بیٹھ کر، حکومتی پالیسیوں کی کامیابی کے لئے، بھاگ دوڑ کرتے رہے ہیں۔ سردار صاحب پاکستان کے ہینری کسینجر ہیں“۔میاں خورشید محمود قصوری بھی پیپلز پارٹی میں بھی رہے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ، اُن کی بھی معترف رہیں، لیکن قصوری صاحب اُس وقت عالمِ اسلام کی توجہ کے مرکز بن گئے، جب 2ستمبر 2005ءکو، انہوں نے۔( صدر جنرل پرویز مشرف کی ہدایت پر)۔ وزیرِ خارجہ پاکستان کی حیثیت سے، جمہوریہ تُرکیہ کے شہر استنبول میں، اسرائیلی وزیرِ خارجہ۔”Silvan Shaalom“۔ سے پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مسئلے پر مذاکرات کئے تھے۔ پاکستان میں۔دونوں مُلکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں، صدر، جنرل پرویز مشرف کی پالیسی کے خلاف، زبردست احتجاج ہُوا تھا۔ عمران خان نے مولانا فضل الرحمن کو ۔ ”منافق“۔ کہاتو،جواب میں ،مولانا اور جمعیت عُلماءاسلام کے دوسرے لیڈروں نے عمران خان کو۔ ”یہودیوں کا ایجنٹ“۔ قرار دیا۔ میرے نزدیک مولانا فضل الرحمٰن ۔” منافقت“۔نہیں کرتے بلکہ ۔” سیاست“۔ کرتے ہیںاور عمران خان بھی ایک محبِ وطن سیاسی لیڈرہیں اوریقینا انہوں نے، میاں خورشید محمود قصوری کو۔ ”اسرائیل نواز“۔ ہونے کی وجہ سے نہیں ، بلکہ اُن کی کسی اور خوبی کی وجہ سے ہی، سردار آصف احمد علی پر ترجیح دینے کا فیصلہ کِیا ہے، لیکن اصل فیصلہ تو این اے 140کے ووٹروں کو کرنا ہے،جب دونوں قصوری سابق وزرائے خارجہ آمنے سامنے ہوں گے ۔

ای پیپر دی نیشن