نگران وزیراعلیٰ المعروف امریکی چڑیا والے نجم سیٹھی نے اپنے گھر کو کیمپ آفس قرار دے دیا ہے۔ اب وہ دس بجے آفس بے شک نہ آئیں۔ گھر سے ہی احکامات جاری فرمایا کریں۔ اس میں صرف گذارش ہے کہ اپنی گھر والی یعنی اہلیہ جگنو محسن سے مشورہ ضرور کر لیں۔ یہ اہلیہ اہل سے ہے۔ نجم سیٹھی خفا نہ ہوں تو کہوں کہ جگنو محسن ان سے زیادہ اہل خاتون ہیں۔ نوائے وقت کے مقبول کالم سرراہے میں لکھا گیا ہے کہ نجم سیٹھی جگنو کی روشنی میں اس مقام تک پہنچے ہیں۔ وہ نجم کی محسن بھی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر سچی عورت کو موقعہ ملے تو وہ مردوں سے بہت آگے جا سکتی ہے۔ مرد اس کے پیچھے چلتے ہوئے اپنی اپنی ”منزل“ پر پہنچ سکتے ہیں۔ جگنو محسن کو ن لیگ کی طرف سے ٹکٹ بھی مل گیا ہے۔ وہ مریم نواز کی اتالیق بھی ہیں۔ وہ مریم کو مائل کریں کہ وہ الیکشن ضرور لڑیں۔ یہ خود ان کے لئے بھی اچھا ہو گا۔ ٹکٹ دینے والے بورڈ میں مریم نواز بھی موجود تھیں۔ صوفی دانشور اور ادیب اشفاق احمد کو ان کی زندگی میں ان کے سامنے کہا تھا کہ بانو قدسیہ (بانو آپا) آپ سے بڑی تخلیقی اور روحانی شخصیت ہیں۔ اشفاق صاحب نے بہت معنی خیز انداز میں کہا کہ ”میں بانو قدسیہ کو بانو آپا نہیں کہہ سکتا۔ وہ ان کی اہلیہ تھیں.... بشریٰ اعتزاز بہرحال اعتزاز احسن سے بہت بڑی اور صابر عورت ہیں۔ اسی طرح فہمیدہ مرزا اپنے ذوالفقار مرزا سے زیادہ سیاستدان ہیں۔ انہوں نے سنجیدگی میں اپنی اور اپنے شوہر نامدار کی ”زندگی“ بنائی ہے۔ شائستہ اکرام اللہ ایک بہت بڑی خاتون تھیں ان کے شوہر کا تعارف اس طرح کرایا گیا۔ یہ اکرام اللہ ہیں شائستہ اکرام اللہ کے شوہر۔ جگنو محسن کچھ عرصے کے لئے صبح کے کسی پروگرام میں شریک ہوتی تھیں۔ بہت اچھی اور شگفتہ گفتگو لوگوں کو سننے کے لئے ملی تھی۔ ان کے پاس بظاہر چڑیا نہیں تھی۔ لیکن اُن کی شخصیت کی چہکار بھلی لگتی تھی۔
مریم نواز الیکشن ضرور لڑیں۔ اب کیپٹن صفدر کو بھی ٹکٹ مل چکا ہے۔ وہ کیپٹن صفدر کے لئے ایک نعمت کی طرح کی اہلیہ ہیں۔ کیپٹن صفدر بھی سمجھتا ہے کہ سب کچھ انہی کی وجہ سے ہے۔ جبھی تو اس نے اپنی جگہ اس کے لئے چھوڑ دی ہے۔
نجم سیٹھی کو اپنا گھر پھر سے مل گیا ہے کہ وہ ان کا کیمپ آفس بھی ہے مجھے نوائے وقت سے کچھ کولیگ صحافیوں نے کہا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کے دور میں ہربنس پورہ میں تمام صحافیوں کو پلاٹ ملے تھے ان میں کچھ دوست پریشان ہیں کہ وہاں قبضہ گروپ خواہ مخواہ تنگ کرتا ہے۔ اب نجم صاحب نگران وزیراعلیٰ ہیں اور وہ خود صحافی بھی ہیں۔
وہ ذاتی دلچسپی لے کے یہ مسئلہ حل کرائیں۔ ان کے چند دنوں میں سے ایک دن آج اور بھی کم ہو گیا ہے۔ نگران کابینہ کے لئے مجیب شامی سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ نجم سیٹھی ہی جانتے ہیں۔ مگر میرا خیال ہے کہ امتیاز عالم کابینہ میں ضرور ہوں گے۔ اس پر بھی مفاہمت ہو گئی ہے کہ نوازشریف امتیاز عالم کی سیفما میں صدارت کرنے جا چکے ہیں۔ جو کچھ وہاں انہوں نے کہا۔ مجید نظامی اس کے لئے بہت خفا ہوئے تھے۔ جب نجم سیٹھی حلف اٹھا رہے تھے تو انہوں نے اپنا نام نجم عزیز سیٹھی بتایا ۔ اس سے شوکت عزیز یاد آئے۔ جنہیں سب دنیا جانتی ہے کہ وہ امپورٹڈ وزیراعظم تھے۔ نجم عزیز سیٹھی نے حلف اٹھایا کہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دوں گا۔ نجانے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے الفاظ ان کے منہ سے کیسے نکلے ہونگے۔ پھر انہوں نے حلف اٹھایا کہ میں اسلامک آئیڈیالوجی (نظریہ پاکستان) کی حفاظت کروں گا جو پاکستان کی تخلیق کی بنیاد ہے۔ مجیب شامی نے ایک نجی ٹی وی پر کہا کہ یہ سُن کر امتیاز عالم کو پسینہ آ گیا ہو گا۔ شاید وہ گورنر ہاﺅس میں موجود تھے۔ بھارت دوستی کی منفی روایت کے فروغ کے لئے فرائی ڈے ٹائمز اور سیفما کی کارروائیوں سے کون واقف نہیں ہے۔
اب امتیاز عالم وزیر ہونگے تو انہیں بھی یہی حلف اٹھانا پڑے گا۔ اس کے لئے پسینہ کس کو آئے گا۔ نجم صاحب اپنی چڑیا کی زبانی اکثر کہتے تھے کہ پنجاب میں بہت لاقانونیت ہے۔ طالبان کی سرپرستی بھی یہاں سے ہو رہی ہے۔ اب نجم سیٹھی کو اللہ نے موقعہ دیا ہے۔ وہ آغاز کریں اور سب ٹھیک کر دیں۔ مگر وہ تو ساری بیورو کریسی کو تبدیل کر رہے ہیں کہ اس کے بغیر فری اینڈ فیئر یعنی بامقصد الیکشن نہیں کرائے جا سکتے۔ اس کے لئے چیف الیکشن کمشنر سے ”اجازت“ لے لی گئی ہے۔
نوازشریف کے ایک پسندیدہ کالم نگار نے لکھا ہے کہ نجم سیٹھی کی والہانہ قربتیں صدر زرداری کے ساتھ ہیں ان کا نام بھی صدر زرداری نے تجویز کیا تھا۔ مگر انہیں نگران وزیراعلیٰ نوازشریف نے بنوایا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مفاہمت کی سیاست و حکومت اب بھی چل رہی ہے۔ اب پھر صدر زرداری نے نوازشریف سے اپنے مطلب کا فیصلہ کرا لیا ہے۔ اس وقت وزیراعظم اور چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ صدر زرداری کے تجویز کردہ ہیں۔ حتٰی کہ ان کے ہی وزیراعظم کھوسہ صاحب کو چیف الیکشن کمشنر نے نامزد کیا ہے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعرے لگانے والے کہاں گئے؟ پارلیمنٹ سے ایوان صدر بالادست ہے کہ اس کا آدمی الیکشن کمشن نے قبول کر لیا ہے۔ ”نجم سیٹھی کا وزیراعلیٰ بننا صدر زرداری کے کئی عزائم اور مقاصد کے ساتھ جڑا ہوا ہے“۔ اس میں امریکہ اور بھارت کی خوشنودی بھی شامل ہے۔ مگر اچھی نثر لکھنے والا کالم نگار اس حوالے سے کچھ نہیں لکھے گا کہ آخر نوازشریف نے صدر زرداری کے ایک قریبی آدمی کے لئے اپنی پوری امداد کیوں فراہم کی؟ نجم سیٹھی کو تجویز صدر زرداری نے کیا۔ بنوایا نوازشریف نے؟ یہ ہم آہنگی یک رنگی کتنی گہری ہے۔ یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ سب کچھ ایک ملی بھگت سے ہو رہا ہے تو پھر لوگوں کی پریشانیاں کم نہیں ہونگی بلکہ بڑھیں گی۔ ایک اشیرباد یہ بھی ہے کہ نجم سیٹھی کو اس طرح یہ سعادت نصیب ہوئی کہ وہ داتا دربار اور علامہ اقبال کے مزار پر حاضر ہوئے۔ یہاں انہوں نے وہی دعا کی ہو گی جو اجمیر شریف میں صدر زرداری نے کی ہو گی؟