اسلام آباد(سہیل عبدالناصر) بہتری کی جانب مائل پاکستان اور افغانستان کے دو طرفہ تعلقات ایک سرحدی جھڑپ کی وجہ سے اب ترقی معکوس کا شکا رہو گئے ہیں۔افغانستان نے کوئٹہ کی فوجی مشقوں کیلئے اپنا وفد نہیںبھیجا،پاکستان نے افغان صوبہ ننگر ہار میں دونوں ملکوں کے فوجی کمانڈروں کے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ یہ اجلاس اگلے ہفتہ متوقع تھا۔ دفتر خارجہ کے ایک ذریعہ کے مطابق افغان صوبوں کنڑ اور نورستان میں پاکستان مخالف شدت پسندوں کے ٹھکانے فساد کی جڑ ہیں۔ یہ شدت پسند سرحد عبور کر کے پاکستانی سیکورٹی فورسز اور شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں جوابی کارروائی پر افغانستان تلملا اٹھتا ہے۔ نورستان سے زیادہ کنڑ میں ان ٹھکانوں نے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو خلفشار سے دو چار کر رکھا ہے۔پاکستان کے پاس اطلاعات موجود ہیں کہ ان شدت پسندوں کو صوبائی انتظامیہ کی طرف سے ہر ممکن سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس ذریعے کے مطابق لندن میں پاکستان و افغانستان کے صدور اور برطانوی وزیر اعظم کے درمیان سہ فریقی کانفرنس اور بعد ازاں تاجک النسل افغان وزیر دفاع جنرل بسم اللہ محمدی کے اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ حالیہ دورہ پاکستان کے بعد پاک افغان تعلقات نئی بلندیوں سے ہمکنار ہو چکے تھے۔ لیکن گزشتہ ہفتہ افغان علاقہ سے ہونے والی کارروائی اور پاکستانی فورسز کے محدود جواب نے کے بعد دونوںملکوں کے باہمی تعلقات کی گاڑی تیزی سے ڈھلوان پر نیچے کی جانب پھسل رہی ہے۔ مذکورہ سرحدی کارروائی کے بعد افغان نائب وزیر خارجہ نے کابل میں متعین پاکستان کے سفیر کو طلب کر کے سخت زبان میں لکھا گیا احتجاجی مراسلہ ان کے سپرد کیا۔ جس کے بعد افغان وزارت خارجہ کے ترجمان نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور پاکستان پر جارحیت کے الزامات عائد کر دئے۔ پاک افغان تعلقات سے آگاہ ایک اور ذریعے کے مطابق حامد کرزئی تو اب افغانستان سے اپنا بوریا بستر گول کرنے کے چکر میں ہیں اور آئندہ صدارتی انتخاب میں حصہ نہ لینے کا اعلان بھی کر چکے ہیںکیونکہ انہیں بخوبی علم ہے کہ 2014 کے بعد افغانستان کی اندرونی صورتحال پھر جنگجو گروپوں کے رحم و کرم پر ہو گی۔ تاہم شمالی افغانستان کی قیادت سمجھتی ہے کہ وہ حامد کرزئی کے بعد اپنا صدارتی امیدوار لا سکتے ہیں ۔ کرزئی کی انتخابی کامیابیوں کے نتیجے میں انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان کے صدارتی امیدوار کی کامیابی کیلئے پاکستان کی حمائت ناگزیر ہو گی جس کے بعد ہی افغان وزیر دفاع نے پاکستان کا حالیہ دورہ کیا اور پاکستان کی طرف سے فوجی تربیت کی پیشکش میں گہری دلچسی ظاہر کی تاہم گہری جڑوں سے محروم اس عارضی دلچسبی کا بھانڈہ ایک سرحدی جھڑپ کے بعد ہی پھوٹ گیا ہے۔افغانستان مین اتحادی فوج کی کمانڈ کو صورتحال کا علم ہے لیکن وہ انجان بن کر دونوں ملکوں کی کشیدگی کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ کابل میں متعین مقامی اور غیر ملکی صحافیوں نے ایساف کے ترجمان بریگیڈئر جنرل گنٹر کاٹز سے حالیہ پاک افغان سرحدی کشیدگی کی وجہ کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں واقعات کا علم ہے لیکن وہ وجوہات کی تردید یا تصدیق نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ بتا سکتے ہیں کہ حملے کس طرح شروع ہوئے۔