علامہ احسان الہٰی ظہیر شہید ؒسیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔علامہ صاحب ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔علامہ صاحب ؒ بچپن ہی سے بڑے ذہین او ر فطین ثابت ہوئے۔ آپ پر صحیح معنوں میں اہلحدیثیت کا رنگ نمایاں تھا۔آپ ایک تاریخ ساز شخصیت کے حامل تھے۔ علمی و دنیا وی تعلیمی سر گر میوں کے بعد علامہ صاحب ؒ نے خطا بت کے ساتھ ساتھ میدان سیاست کا آغاز 1967میں اقبال پارک میں عید کے خطبہ سے کیا۔ شیخ الحدیث مولانا حافظ اسماعیل سلفی ؒ نے آپ کو مولانا سید دائود غزنوی ؒ کی اور اہلحدیثوں کی قدیم تاریخ ساز مسجد ’’جامع مسجد چینیانوالی اہلحدیث ‘‘ کی مسند میں لا کر کھڑا کر دیا۔ آپ 16کتابوں کے مصنف تھے ۔ آپ کی تمام کی تمام کتب عربی زبان میں شائع ہوئیں۔ جب 1975کوختم نبوت کی چوکیداری کے فرایض سر انجام دینے والے آغا شورش کاشمیری مرحوم ؒ کو حق بیان کرنے کے جرم میں پابند سلال کر دیا گیا تو ایسے عالم میں ’’ فتنہ قادیانیت‘‘ اپنے عروج پر تھا تو ملک بھر کی تمام مذہبی جماعتوں میں ایک سناٹا چھایا ہوا تھا۔تب جمعیت اہلحدیث پاکستان کے بانی علامہ احسان الہٰی ظہیر شہید ؒ محمد عربی ﷺ کی نبوت کی چوکیداری کی عظمت کیلئے میدان عمل میں نکلے۔اس وقت آپ خطابت اور جوانی کے پورے عروج پر تھے۔ علامہ شہید ؒ مسلک اہلحدیث کے ماتھے کا جھومر تھے۔ لیڈری ایسی کہ عالم اسلام اور بڑے بڑے لیڈران آپ کو رشک بڑی نگاہ سے دیکھتے۔شخصیت ایسی جو عالم اسلام کیلئے اتحادو اتفاق کی داعی تھی۔ جب ایوب کے دور میں فتنہ قادیانیت نے جنم لیا تو آپ نے ایوب عزم کو ایسے لتا ڑا اور ان کو بتلا دیا کہ جب بھی نبی مکرم ﷺ کی بنوت پر ناپاک حملوں کی بات ہوگی تو محمد عربی ﷺ کے یہ پروانے سیسہ پلائی دیوار کی مانندنبی مکرم ﷺ کی نبوت پر ڈاکہ زنی کر نے والوں کو جلا کر بھسم کر دینگے۔ علامہ صاحب ؒ نے قادیانیت ، شیعیت فتنے کو آڑے ہاتھوں لیا اور پھر تو ہر جمعے اور تاریخ ساز اجتماعوں میں قادنیت و شیعیت کے پرخچے اُڑانے شروع کر دئیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کے خاتمے کیلئے ’’تحریک ختم نبوت‘‘میں بھر چڑھ کر حصہ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے آپ کا شمار مرکزی قائدین میں ہونے لگا۔آپ ایم آرڈی کے رکن بھی رہے مگر اس میں زیادہ عرصہ شمولیت اختیار نہیں کی۔ اسی طرح جب جنر ل ضیا ء نے 90 دن کا کہہ کر 11سال تک اقتدار پر قبضہ جمائے رکھا تو اس نے 5 شرعی حدود کا نفاز کیا لیکن عملاکسی کو عملی جا مہ نہیں پہنا یا ۔ ضیاء الحق نے دیو بندی، بریلوی، شیعہ،اور اہلحدیثوں کے بعض نامور علما ء کو اپنا حاشیہ برادر بنا لیا ۔لیکن ان مفاد پرستوں اور خود غرضوں کے دور میں بھی علامہ احسان الہٰی ظہیر شہید ؒ انکے خلاف برہنہ شمشیر بن کر ضیا ء الحق کی آمرانہ اور منافقانہ پالیسیوں کیخلاف گرجتے رہے۔ آپ نے تحریک نظام مصطفی ،تحریک استقلال، تحریک ختم بنوت ،سقوط ڈھاکہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آپ نے اہلحدیث نوجوانوں اور علمائے کرام کو ایک پلیٹ فارم جمع کرنا شروع کیا۔ جمعیت اہلحدیث پاکستان کے تحریکی پلیٹ فارم پر آپ کو میاں فضل حقؒ،مولانا عبدالقادر روپڑی ؒ،مولانا محمد حسین شیخوپوریؒ کی مخالفت کو بھی سہنا پڑا ۔نفاز اسلام اور اسلام کی سر بلندی ،محمد عربی ﷺ کی عظمت کیلئے موچی دروازہ (لاہور)، دھوبی گھاٹ (فیصل آباد )،شیخوپورہ، کمالیہ، بیگم کوٹ (لاہور)، جناح ہال ( لاہور)، ملتان، کراچی، سکھر،سر گودھا، اوکاڑا، ساہیوال، چینوٹ، سیالکوٹ، راولپنڈی، قصور میں اور دیگر شہروں میں تاریخ ساز جلسہ عام کر کے اہلحدیثوں کو پوری دنیا میں روشناس کر وا دیا۔ 23 مارچ1987کو قلعہ لچھمن سنگھ راوی روڈ لاہورمیں ایک ’’سیرت النبی ﷺ ‘‘ کے عنوان سے جمعیت و اہلحدیث یوتھ فورس پاکستان کے زیر اہتمام عظیم الشان جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا۔ جلسے سے مولانا محمد خان نجیب شہیدؒ ، مولانا عبد الخا لق قدوسی شہید،علامہ حبیب الرحمن یزدانی شہیدؒ کے علاوہ دیگر علما ئے کرام نے خطاب کیا ۔ جن کے بعد آپ کا خطاب شروع ہوا تو ایک ہولناک دھماکہ ہو۔مولانا محمد خان نجیب ،مولانا عبدالخالق قُدوسی ،علامہ حبیب الرحمن یزدانی موقع پر ہی جام شہادت نوش کر گئے جبکہ علامہ صاحب ؒ شدید زخمی حالت میں میو ہسپتال داخل ہوئے ۔اسی اثناء میں شاہ فہد مرحوم نے اپنے خصوصی طیارے کے ذریعے آپ کو سعودی عرب علاج کیلئے بلوا لیا ۔یہاں پر آپ کا علاج سعودی عرب کے دارالخلافہ ریاض کے ملٹری ہسپتال میں ہوتا رہا لیکن ہو تا وہی جو اللہ کو منظور ہوتا ہے عالم اسلام کے عظیم مجاہد ملت30مارچ1987 کی درمیانی شب کو شہادت جیسے عظیم رتبے پر فائز ہو گئے۔ آپ کی نماز جنازہ ریاض میں آپ کے شفیق اُستاد محترم الشیخ علامہ عبدلعزیز ابن باز نے پڑھائی ۔ آپ کو سیدنا امام مالک ؒ کے پہلوئوں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔