شہرت اور نام پیدا کرنے کی خواہش انسانی سرشت میں شامل ہے اس سلسلے میں Guinness World Records ایک مشہور کتاب ہے جس کا انگلستان کے دوبھائی Norris اور Ross Mc Whiter نے 1954 میں آغاز کیا۔ صوبہ پنجاب میں حکومت سازی کے بعد سے وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف بھی ریکارڈ قائم کرنے میں مصروف ہیں۔ اس وقت تک وہ 30 ریکارڈ قائم کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ عر صہ پہلے انہوں نے 60,000 نفوس کو اکٹھا کر کے دنیا کا سب سے بڑا جھنڈا (قومی پرچم) بنانے کا ریکارڈ قائم کیا اور بنگلہ دیش کا 2012ء میں قائم شدہ ریکارڈ کو توڑ دیا۔ اس سلسلے میں سکول کے طلباء نے حصہ لیا۔ اس دوران بعض اوقات اُن کو گھنٹوں فروری کی سخت سردی میں انتظار کرنا پڑا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے اُس سے ہم نے ملکی ترقی اور خوشحالی کے حوالے سے کیا فوائد حاصل کئے؟ اس کی بجائے ہم اگر ان نوجوانوں کی صلاحیتوں کو کسی تعمیری کاموں کے لیے استعمال کرتے تو وہ کہیں بہتر ہوتا۔ دنیا میں اس ضمن میں لا تعداد مثالیں قائم کی گئی ہیں۔ 1980 میں بائیں بازو کے Sandinista گوریلوں نے جب اقتدار سنبھالا تو انہوں نے ملک کے دہی علاقوں میں جہاں غیر تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد تقریباً 80 سے 90 فی صد تھی کو بہتر بنائے کا کام فوری طور پر شروع کیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے 60 ہزار نوجوان جن میں12سال کے بچے اور 30,000 نوجوانوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ نتیجہً صرف ایک سال کے قلیل عرصے میں دہی علاقوں میں غیر تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد کم ہو کر صرف 52 فی صد رہ گئی۔ اس عمدہ کار کردگی پر یونیسکو کی طرف سے اُن کو Nadeghda K Krupskaya ایوارڈ دیا گیا۔ یہ سلسلہ یہی ختم نہیں ہوا بلکہ 1982,1986,1987,1995 اور 2001 میں بھی یہ انعام ان کے ملک نے ہی جیتا۔ اس سلسلے میں نکارا گوا نے دراصل کیوبا کی تقلید کی جہاں 1961 میں ملک میں تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کے لیے بھر پور کوششیں کی گئیں۔ اُس وقت کیوبا میں تعلیم کا معیار 60-75 تک تھا۔ اس مہم کے اختتام پر تعلیمی معیار 96 فی صد ہو گیا۔اور آج اُس ملک میں تعلیمی معیا ر 100 فی صد ہے ۔ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کی مہم میں10 سے 20 سال تک کے افراد کی خدمات حاصل کی گئیںاور اُن کو اس ضمن میں دہی علاقوں میں رہائش ، سازووساماں اور تمام دیگر سہولیتں فراہم کی گئیں۔ اس سلسلے میں کل تقریبا 269,000لوگوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس مہم کے دوران تربیت حاصل کرنے والے افراد نے بعد میں 15 دوسرے ممالک میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کیا۔ جس کے سلسلے میں یونیسکو کی طرف سے اس ملک کو KING SEJONG LITERACY PRIZE دیا گیا۔ علاوہ ازیں پچھلے 50سالوں میں کیوبا کے تربیت یافتہ افراد نے دوسرے ممالک بشمول موزمنیق اور ہٹائی میں بھی تعلیم کے فروغ کے لیے رضا کارانہ طورپر کام کیا۔ اسی طرح نکاراگوا کے رہنما ڈینیل اوئیگا نے بھی 2007 میں ملک میں تعلیم کے فروغ کے لیے مہم کا آغاز کیا۔ یقینا ہمیں بھی ان ممالک کی تقلید کرنی چاہیے ۔ کیونکہ ملک عزیز میں بہت سے کام کرنے باقی ہیں۔ جن میں تعلیم کا فروغ ، علاج معالجے کی سہولیات اور سماجی خدمت کے بہت سے اہم کا م سر فہرست ہیں۔ چنانچہ جھنڈے لہرانے اور ترانہ پڑھنے کے ریکارڈ قائم کرنے کی بجائے ہمیں اپنی نئی پود کو تعمیری کاموں میں بھرپورحصہ لینے کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ ویسے بھی GUINNESS کتاب میں لکھے جانے والے ریکارڈ چند ہفتوں یا مہینوں میںٹوٹتے رہے ہیں۔ مثبت اور تعمیری کاموں کے حوالے سے دنیا میں بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ مثلاً جاپان میں 43افراد جن کی عمر 18 سے 23سال کے درمیان ہے نے پچھلے ماہ صبح سے شام تک سخت محنت کر کے بھارت کی ریاست اُتر کھنڈ میں سیلاب زدہ لوگوں کے لیے گھر تعمیر کئے۔ ان جاپانی طلباء نے یہ قدم وہاں کے لوگوں کی حالت زار دیکھ کر اُٹھایا۔ جہاں تک کہ پنجاب سپورٹس فیسٹیول کا تعلق ہے اُس میں ہمیں کھیلوں پر توجہ دینی چاہیے تھی کیونکہ پاکستان کھیلوں کے حوالے سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت ہی پیچھے رہ گیا ہے۔ جبکہ 1950 ء میں میں ہم نے Athleticsاور دوسرے منعقد کھیلوں میں عالمی سطح پر ریکارڈ قائم کیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ Guinnes کی کتاب میں نام درج کروانے کی بجائے ہم مثبت اور تعمیری کاموں میں اپنی نوجوان نسل کی بے پنا ہ صلاحیتوں کو منضم اور بروئے کار لا کر نکارا گوا اور کیوبا کی طرح ملک میں تعلیم کو فروغ دیں اور دوسرے اہم شعبوں میں ترقی کی منزلیں طے کریں تا کہ ملک عزیز ترقی کر سکے اور لوگ خوشحالی اور سکون کی زندگی گزار سکیں۔