گزشہ چند عرصے سے ’’سماجی رابطے کی ویب سائٹسـ"کی اہمیت میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔اس میں فیس بک،ٹوئیٹر، مائی سپیس،گوگل پلس اور دیگر شامل ہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف ایک دوسرے سے تعلق جڑا رہتا ہے بلکہ یہ کسی تلخ یاد یا چیز کو پھیلانے کا بھی ذریعہ ہے ۔ صرف ایک پوسٹ اس پر شیئر کرنے سے خبر منٹوں میںلاکھوں افراد تک جا پہنچتی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ سوشل میڈیا چُھپے چہروں کو عوام کے سامنے لانے میں بھی اہم کردار سر انجام دے رہا ہے توبے جا نہ ہوگا۔اس کی ایک مثال ’’جسٹن گرلز‘‘ ہیں ، آج سے کچھ ماہ پہلے تک کوئی بھی ان بہنوں کے بارے میں نہ جانتا تھا۔سوشل میڈیا پر ان بہنوں کا جسٹن بیبر(کینیڈین گلوکار) کا گایا ہوا گانا اپ لوڈ کیا گیا اور پھر کیا تھا راتوں رات اس گانے کو بیشمار لوگوں نے دیکھا اور پسند کیا۔سوشل میڈیا کے باعث دونوں بہنیں آج کامیابیوں کی منزل پر پہلا قدم رکھ چکی ہیں ۔ جہاں تک میوزک انڈسٹری کی بات ہے کہ تو یہ ایک ایسی جگہ ہے جس میں بہت سارے لوگ قسمت آزمائی کیلئے آتے ہیں اورکئی برس گزر جانے کے بعد بھی بعض اوقات شہرت اور کامیابی ان کا مقدر بنتی ہی نہیں لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ شہرت ان کا تعقب کرتی ہے ان میںجسٹن گرلز یعنی ثانیہ اور مقدسہ کا نام قابل ذکر ہے۔ ان دونوں بہنوں کی ایک بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ وہ عالمی شہرت یافتہ سافٹ ڈرنک برانڈ کے اشتہار میںبھی گانے کا موقع حاصل کر چکی ہیں۔ ان دونوں بہنوں کا ہم نے گزشتہ دنوں انٹرویو کیاجس میں کی گئیں باتیں کچھ یوں ہیں۔
ثانیہ اور مقدسہ نے بتایا کہ ان کے خاندان میں پڑھائی لکھائی کا رجحان نہیں ہے اس لئے ہم دونوں بہنوں نے دو یا تین جماعتیں پڑھیں کچھ گھر کے حالات بھی ایسے تھے کہ ہم نے پڑھنا چھوڑ دیا اور اگر خاندانی لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارے ہاں لڑکیوں کو پڑھانا لکھانا اتنا اچھا بھی نہیں سمجھا جاتا۔ جس خاندان سے وہ تعلق رکھتی ہیں وہاں بچپن سے ہی بچے کو میوزک کی تعلیم دی جاتی ہے یوں ہمیں بھی بچپن سے ہی والدین نے موسیقی کی تعلیم دینا شروع کر دی تھی۔ہمارے والدشادی بیاہ جیسے خوشی کے دیگر تہواروں پر گانے بجانے کا کام کرتے ہیں۔ہمارے بڑے بتاتے ہیں کہ ہمارا تعلق ریشماں کے خاندان سے ہے یوں گانا بجانا ہمیں وراثت میں ملا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امی کے ساتھ شادی بیاہ پر ہم گالیتی ہیں۔سوشل میڈیا پر گانے کی ویڈیو کے بارے میں ثانیہ اور مقدسہ نے کہا کہ معلوم نہیں کس نے یہ ویڈیو بنائی اور کب سوشل میڈیا پر ڈالی، ہمیں جب فون کالز موصول ہونا شروع ہوئیں تو پتہ چلا کہ لوگوں نے ہمارے گانے کو بہت پسند کیا ہے۔یہ گانا معروف پاپ امریکی گلوکار جسٹن بیبر کا گایا ہوا گیت ہے چونکہ ہمیں انگریزی نہ پڑھنی آتی ہے اور نہ ہی لکھنی آتی ہے جسٹن بیبر کا یہ گیت ہم نے متعدد بار سنا ، ہمیں بہت اچھا لگتا تھا اسلئے ہم دونوں بہنوں نے اس گانے کو اردو زبان میں لکھا اس کے بعد اس کو گایا۔ہماری رہائش لاہور کے نواحی علاقے شاہدرہ میں ہے اور نہ ہی ہم نے کبھی بیوٹی سیلونز کا رخ کیا۔ میک اپ یا بالوں کی کبھی کٹنگ تک نہیں کروائی تھی۔اس ویڈیو کے مشہور ہوتے ہی جب ہم سے میڈیا نے رابطہ کیا تو پہلے تو یقین ہی نہ آیا اس کے بعد جب ہمیں باقاعدہ ٹی وی پروگراموں میں آنے کی دعوت دی گئی تو ہم یہ جانتے ہی نہ تھے کہ وہاں میک اپ کرکے جاتے ہیں اور باقاعدہ تیاری کرنی پڑتی ہے۔جب ہم ٹی وی کے پہلے پروگرام میں گئیں تو ہمارے بال کٹوائے گئے، میک اپ کیا گیا ۔ یہ سب کچھ نیا اور عجیب بھی تھا لیکن اس پر خوشی بہت ہوئی۔اس کے علاوہ کیمرے کے سامنے جانا،بیٹھنا اور میزبان کے سوالوں کا جواب دینا بالکل آسان نہ تھا لیکن ایک کے بعد کئی اور پروگراموں میں جانے کی دعوت ملی، ہم دونوں بہنیں گئیں اور وہاں بھی ایسا ہی ماحول تھا۔ پہلی مرتبہ کیمرے کے سامنے تھوڑی ہچکچاہٹ سی ہوئی لیکن اب ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ کیمرے کے سامنے کیسے بیٹھنا اور بات کرنی ہے۔شروع شروع میں تو لوگ جب سوال کرتے تھے تو جواب ہی نہیں دینا آتا تھا۔انہوں نے بتایا کہ اب تک لاہور، کراچی اور اسلام آبادکے ٹی وی پراگراموں میںحصہ لے چکی ہیں۔ویسے تو گائیکی پہلے بھی سیکھ رہیں تھیں لیکن اب ہم دونوں بہنیں موسیقی کو لیکر خاصی سنجیدہ ہو گئیں ہیں، بڑے بڑے گلوکاروں کو سنتی ہیں اور کوشش کر رہی ہیں کہ گانے کے رموز و اوقاف سیکھیں تاکہ ہم بھی گائیکی کی دنیا میں اپنا نام پیدا کر سکیں۔
ثانیہ اور مقدسہ نے نوائے وقت کو بتایا کہ ان کے رشتے دار بہت خوش ہیں اور ابھی تک ہر طرف سے مبارکبادیں موصول ہو رہی ہیں۔کبھی سوچانہیں تھا کہ لوگ اتنی پذیرائی دیںگے اور ہم بھی ٹی وی پر آئیں گی اور لاکھوں لوگ ہمارا پروگرام سنیں گے۔
ثانیہ اور مقدسہ کی والدہ شہناز بیگم نے کہا کہ ہمارے باپ دادا کلاسیکل گاتے تھے میری بھی یہی خواہش ہے کہ میری بیٹیاں کلاسیکل گائیں اور ان کا شمار ملک کے نامور کلاسیکل گلوکاروں میںہو لو گ ان کو جانیں ان کے کام کو پسند کریں۔میں نے اپنی بیٹیوں کو موسیقی کی تعلیم بچپن سے ہی دینا شروع کر دی تھی اور ابھی تک دے رہی ہوں۔ثانیہ اور مقدسہ صبح اٹھ کر پہلے میرے ساتھ سارے گھر کا کام کرتی ہیں اس کے بعد ہم گانے بجانے کا کام شروع کر دیتے ہیں۔اکثر شادی بیاہوں پر بھی ہم گانے چلی جاتی ہیں۔ایک سوال کے جواب میں شہناز بیگم نے کہا کہ پڑھائی لکھائی ہمارے خاندان کی روایت نہیںہے اس کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے اس لئے میری کبھی یہ خواہش ہی نہیں رہی کہ میری بیٹیاں پڑھیں لکھیں۔لیکن اب میں ایک تبدیلی دیکھ رہی ہوں کہ جب سے میری بیٹیاں میڈیا میں آنا شروع ہوئی ہیں لوگوں سے ملنے اور بات کرنے کے بعد ان میں پڑھنے لکھنے کا شوق بیدار ہوا ہے تو میں ان کے اس شوق کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنوں گی، ہاں یہ کوشش ضرور ہو گی کہ یہ پڑھائی کے ساتھ موسیقی کی تعلیم بھی لیتی رہیں۔ایک سوال کے جواب میں شہناز بیگم نے کہا کہ ہمارے محلے میں کبھی ٹی وی کے لوگ نہیںآئے تھے ، جب ہمارے گھر پر کیمرہ لیکر ٹی وی کی ٹیم پہلی مرتبہ آئی تو محلے کے لوگوں کے لیے یہ سب کچھ نیا تھا، سب لوگ ہمارے گھر پر آتے اور ہمیں مبارکباد دیتے تھے اور ابھی بھی ایسا ہی ہے۔خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک ویڈیو اتنی ہٹ ہوجائے گی۔