انٹرنیٹ پر شہنشاہ نمرودکی ملکہ کا انجر پنجر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ملکہ کی یہ باقیات محکمہ آثار قدیمہ والوں نے عراق میں کھدائی کر کے دریافت کیں ملکہ کا بازو ہیرے، جواہرات اور سونے کی باریک سنگلیوں سے مرصع تھا۔ یہ اس شہنشاہ کی ملکہ تھی جس کی رعایا اسے خدا مان کر پرستش کرتی اور جس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پاداش حکم عدولی، آگ میں پھنکوایا تھا۔
شہنشاہ نمرود کا ذکر قرآن میں بھی ہے۔ تفسیر میں لکھا ہے۔ ”عراق کے بادشاہ نمرود کو جب ابراہیم (علیہ السلام) کی تبلیغ کا پتہ چلا تو اس نے انہیں بلایا۔ نمرود نے پوچھا ”تم اپنے باپ دادا کے مذہب کے خلاف کیوں ہو۔ ابراہیمؑ نے جواب دیا ”میں اللہ پر یقین رکھتا ہوں۔ جس نے مجھے، آپ کو سورج چاند، ستارے، ہر جاندار اور کائنات کو پیدا کیا.... یہ گونگے، بہرے بے یارومددگار لکڑی اور پتھر کے بت خدا نہیں ہو سکتے۔“ نمرود نے کہا ”اگر میرے علاوہ کوئی اور خدا ہے وہ کہاں ہے اور وہ کیا ہے،،؟ ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا ” میرا خدا وہ ہے جو زندگی اور موت پر قادر ہے،، نمرود نے جواب دیا،، میں بھی زندگی اور موت دے سکتا ہوں۔ پھر بادشاہ نے ایک بے قصور آدمی کو بلوایا اور اس کا سر قلم کروا دیا۔ ساتھ ہی ایک قاتل کو جسے سزائے موت ہو چکی تھی اسے آزاد کر دیا۔ یہ دیکھ کر ابراہیمؑ نے کہا ”اللہ کے حکم سے سورج مشرق سے طلوع ہوتا ہے۔ کیا آپ میں اتنی قوت ہے کہ مغرب سے طلوع کروا دیں،، سوال سن کر نمرود اور اس کے درباری حیران و پریشان ہو گئے۔ انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ابراہیم کو زندہ جلا دیا جائے۔،،
زمین میں بہت بڑا گڑھا کھودا گیا جسے لکڑیوں سے بھر دیا۔ شہری لکڑیوں کے ٹکڑے لے آئے شاہی فرمان پر جن سے گڑھا بھر گیا، اس کے بعد آگ دہکائی گئی جو کئی دن تک جلتی رہی۔ اس قدر تپش پیدا ہوئی کوہ بڑے پتھر بھی سرخ ہو گئے۔ پھر ایک دن بادشاہ کے حکم پر شہری آگ کے گرد جمع ہوئے۔ ایک منجنیک لائی گئی جس میں ابراہیم (علیہ السلام) کو ڈال کر اس دہکتی ہوئی آگ میں پھینکا گیا۔ قرآن میں لکھا ہے ”ہم نے حکم دیا اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کی محافظ بن جا،، (سورة البقرہ۔2 ) روایت ہے کہ جب ابراہیم کے والد آذر نے آگ میں پھلوں سے لدا ہوا باغ دیکھا تو بیٹے کو آواز دے کر کہا ”ابراہیم تمہارا خدا واقعی بہت بڑا ہے،، یاد رہے کہ آذر بت خانہ کے پروہت تھے۔
شہنشاہ نمرود ملکہ کی قبر کھدائی سے نکلی ہوئی ہڈیاں اور ہیرے جواہرات گہنوں سے بھرا بازو دیکھ کر تجسس ہوا کہ اس پر مزید تحقیق کی جائے۔ ایک کتاب مل گئی جس کا نام UR تھا۔ اور اس شہر کا نام تھا جہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور پرورش پائی جہاں نمرود کے حکم پر ابراہیم (علیہ السلام) کو منجنیک میں ڈال کر دہکتی آگ میں پھینکا گیا۔ یہ شہر نمرود کی سلطنت کا دارالخلافہ تھا۔ کتاب اُر کا مصنف Sir leonard wooley ہے جس کی نگرانی میں دبے ہوئے شہر کی کھدائی ہوئی۔ بہت قیمتی نوادرات برآمد ہوئے۔ کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ شہر اُر بہت بڑے طوفان یا سونامی کی نذر ہوا۔ 20 سے 30 فٹ اونچی پانی کی تیز لہریں ٹکرائیں۔ شہر اور اردگرد کے مضافات پانی میں ڈوب گئے۔ کھدائی کے وقت 10 سے 12 فٹ پانی کا جما نمک کھود کر گھروں، شاہراہوں، مندروں اور مزاروں کو نمایاں کیا گیا۔ مصنف کے خیال میں یہ طوفان نوح کا ہی ایک جزو تھا۔ اس عظیم حادثہ کو پانچ ہزار سال بیت گئے۔
سر لیونارڈ جس کی نگرانی میں شہر کی کھدائی ہوئی ملکہ نمرود کے مزار کے متعلق لکھتا ہے ”ملکہ کا زمین دوز مزار ایکڑوں میں پھیلا تھا۔ ملکہ کا سارا جسم جو (ہڈیاں بن چکا) ہیرے جواہرات اور سونے کے زیورات سے بھرا ہوا تھا۔ موسیقار، سازندے اپنے سازوں کے ساتھ، کوچوان شاہی رتھوں اور گھوڑوں کے ساتھ، شاہی لباس کی الماری اور کپڑے پہنانے والی باندی، شاہی نوکرانیاں اور باندیاں بعض کے ہاتھوں میں گولڈ ہیئر ربن، کنگھیاں، سونے کے گجرے ہاتھ میں لئے .... ایک ستار بجانے والی کی انگلی ابھی تک ستار کو چھو رہی تھی۔ زمین دوز مزار کے گرد ملکہ کے باوردی باڈی گارڈز ابدی نیند سو رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ ملکہ کی وفات کے دن اس کے خدم و حشم کو بھی دفن کر دیا جاتا۔ کچھ اسی قسم کے رسم و رواج فرعون شاہی میں بھی تھے۔ اہرام مصر میں ایسے فرمانرواﺅں کے مزار دریافت ہوئے ہیں جن کے ساتھ ان کے درباریوں کو بھی دفن کر دیا جاتا۔ ایک فرعون ایک اسرائیلی کے بیٹوں کو قتل کراتا اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتا۔ فرعون کی لاش کو بھی اللہ نے دنیا والوں کے لئے باعث عبرت بنا دیا۔
جہاں خوف خدا نہ رہے، کرپشن عام ہو جائے، غریب بھوک سے خود کشیاں کرنے لگیں امیر کروڑوں کی گاڑیوں میں پھریں۔ جہاں سیرگاہیں تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہ ہوں جہاں لیڈر دولت و اقتدار کی خاطر ملک کے اندر قتل و غارت کرائیں جو وطن دشمنوں اوردہشتگردوں کے سہولت کار بن جائیں۔ جن کی دولتوں کے انبار دیکھ کر عالمی طاقتیں بھی حیران ہو جائیں اور جہاں انصاف رئیسوں کی باندی بن جائے، وہاں اللہ کا عذاب ہے۔ قرآن میں ذکر ہے ”پرہیز کرو اس فتنے سے جس کا عذاب آیا کرتا ہے تو صرف ظالموں تک محدود نہیں رہتا۔،، (انفال پ ا)