میں اپنی تحریر کا آغاز اللہ کا نام لے کر حضرت علیؓ کے قول سے کرتا ہوں کہ سچائی ایسی دوا ہے کہ جس کی لذت کڑوی مگر تاثیر شہد سے زیادہ میٹھی ہوتی ہے ہمارے محب وطن اور بیباک وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش میں انسانوں کا قتل عام ہو رہا ہے مگر انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے اس قتل عام پر خاموش ہیں انہوں نے کہا کہ میں انتہائی رنجیدہ ہوں کہ ہم ان لوگوں کیلئے کچھ نہ کر سکے جن کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے آج سے 45 سال قبل اپنے وطن پاکستان سے وفاداری نبھائی اور آئینی اور قانونی حکومت کا ساتھ دیا، میں حیران ہوں کہ دنیا اور بالخصوص بین الاقوامی انسانی حقوق کے ادارے انصاف کے اس قتل پر خاموش کیوں ہیں بہرحال اس صورتحال پر ہماری خاموشی ہمارا جرم تھا اور اس جرم کا ارتکاب پوری پاکستانی قوم نے کیا ہے۔ خدا کا شکر ہے ہم نوائے وقت فیملی اور ہمارے قارئین اس جرم میں شامل ہونے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ ہمیںؒ علم ہے کہ میر جعفر کے دیس کی ظالم قاتل بڑھیا حسینہ واجد کے منہ کو خون لگ گیا ہے اور وہ آئے دن محب وطن جماعت اسلامی کے رہنمائوں کو انتہائی رعونت، بیدردی اور ظالمانہ طریقے سے تختہ دار پر لٹکا دیتی ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی حزب اختلاف کی پارٹی ہے جسے وہ مٹانے اور سیاسی لیڈران کو نشانہ بنانے کیلئے اس نے جنگی جرائم کے ٹربیونل قائم کئے انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن واچ نے بھی کہا ہے کہ اس عدالت کا طریق کار معیار اور اصول کے مطابق نہیں حد تو یہ ہے کہ حسینہ واجد نے کہا کہ فوج، انتظامیہ اور عوام سے میں کہتی ہوں کہ جو لوگ جنگی جرائم کے ٹربیونل کو ناکام بنانا چاہتے ہیں، آپ آگے بڑھیں اور ان کو عبرت کا نشان بنا دیں، حیرت ہے کہ ایسا حکم تو افریقہ کے چھوٹے ممالک کے آمر بھی اپنے عوام کو اشتعال دلا کر اپنے ہی شہریوں کو حملہ آوروں کے حوالے کرنے کیلئے نہیں دیتے، حسینہ کہتی ہے کہ جماعت اسلامی کے یہ رہنما جو باعمل باکردار، باریش تھے جنگی جرائم میں ملوث تھے حالانکہ اللہ فرماتا ہے کہ جھوٹی بات سے اجتناب کرو اور حضورؐ کا فرمان ہے کہ قیامت کی ہولناکی سے پرندے اپنے پروں کو پھڑپھڑائیں گے اور اپنے پپوٹوں میں جو کچھ ہو گا دے پھینکیں گے اور جھوٹی گواہی دینے والے کے قدم لڑکھڑاتے رہیں گے،
یہاں تک کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے گا۔ حضورؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جو لوگوں پر رحم نہیں کرتے اللہ ان پر رحم نہیں کرے گا اور شفقت کرو گے تو تم پر رحم کیا جائیگا، درگزر کرو گے تو تمہیں بخش دیا جائیگا، اچھی باتوں پر عمل نہ کرنے والوں کیلئے ہلاکت ہے اور ہلاکت ہے ان لوگوں کیلئے جو جان بوجھ کر اپنی بداعمالیوں میں مشغول ہیں، تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر محب وطن پاکستانیوں کو قتل کرنا یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ بین الاقوامی حیثیت کا حامل مسئلہ ہے۔ کاش کہ پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ ہوتا، یا سرتاج عزیز کو ہی وزیر خارجہ بنا دیا ہوتا، پاکستان کو حسینہ واجد کے اپنے ان جرائم کو بین الاقوامی فورمز اور عالمی عدالت انصاف میں فوراً لے جانا چاہیے کیونکہ 19اپریل 1974ء میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا کہ بنگلہ دیش میں کسی شخص پر جنگی جرائم کا مقدمہ نہیں چلے گا، حکومت اگر دلچسپی لے تو اسے بین الاقوامی حقوق کونسل میں بھی اٹھایا جا سکتا ہے، عالمی عدالت انصاف میں حسینہ واجد کو ملزم نامزد کر کے کیس لڑنا چاہیے کیونکہ 1974ء کا معاہدہ کرنے کے بعد ہی پاکستان نے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا تھا اور وہ معاہدہ ابھی برقرار ہے، اسے کسی وزیر خارجہ نے منسوخ یا کالعدم قرار نہیں دیا اور نہ ہی یکطرفہ طور پر ایسا ہونا ممکن ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی کیوں خاموش ہے، کیا انکے وسائل اتنے بھی نہیں کہ وہ پاکستان کے سپریم کورٹ میں جائے اور عالمی عدالت انصاف میں جا کر ایک محب وطن اور جماعت اسلامی کے جناب نظامانی کو قتل ہونے سے بچائے کیونکہ اب 26 مارچ کو حسینہ واجد ایک اور ظلم کرنیوالی ہے، وہ تقریباً 2 سو فوجیوں کو نام نہاد مقدمات چلا کر قتل کر ڈالے گی، جنہوں نے اس کے خیال میں بنگلہ دیش کی آزادی میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا حالانکہ پاکستان کی فوج نے زندہ سلامت اور عزت دیکر مجیب الرحمن کو اپنے لوگوں میں پہنچایا اور مجیب الرحمن کو کسی اور نے نہیں بنگلہ دیشیوں نے ہی قتل کر ڈالا تھا، شاید حسینہ کا بھی یہی انجام ہو کیونکہ ظالم اور برے کی رسی اللہ دراز کر دیتا ہے، تاریخ ظالموں کے انجام عبرت ناک سے بھری پڑی ہے۔ میری ہر پاکستانی، ہر وکیل اور صاحب ثروت سے اپیل ہے کہ کہ وہ خدارا محب وطن بنگلہ دیش میں پھنسے پاکستانیوں کو قتل ہونے سے بچائیں، خدا کا شکر ہے ہمارے پاکستان میں ڈاکٹر عبدالقدیر کو بچانے والے ایس ایم ظفر، جسٹس (ر) خواجہ شریف، جسٹس (ر) میاں نذیر احمد، ڈاکٹر ریاض گیلانی، قتل کے کیس لڑنے والے، لطیف خان کھوسہ، منصور الرحمن خان آفریدی جیسے موجود ہیں، جو قیدیوں کی اصلاح احول کے بھی روح رواں ہیں۔ وہ خود آگے بڑھ کر کروڑوں پاکستانیوں کو اذیت، ذہنی کرب اور ملال سے بچائیں اگر عالمی عدالت انصاف میں جانے کیلئے وکیل صاحبان کو فیس کی ضرورت ہے تو ہماری ملک ریاض صاحب یا ان جیسے دوسرے اشخاص سے بھی گزارش ہے کہ وہ کلمے کے نام پر قربان ہونیوالوں کو بیدرد موت سے بچائیں، میری چیف جسٹس انور ظہیر جمالی سے بھی گزارش ہے کہ وہ ازخود نوٹس لیکر اپنی زادراہ مضبوط بنائیں۔
آئیں مل کر کلمے کے نام پر قتل ہونے والوں کو بچائیں
Mar 30, 2016