صدارتی نظام کے حوالے سے اگر غور کیا جائے تو اس نظام سے وابستہ جن خدشات کا اظہار شدومد سے کیا جاتا ہے ان میں شخصی آمریت اور دوسرے وفاق میں شامل آبادی کے اعتبار سے چھوٹی اکائیوں کی حق تلفی کے خدشات سر فہرست ہیں جن کی اہمیت سے واقعی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ان خدشات کا ٹھوس اور بامعنی حل تلاش نہ کیا جائے تو صدارتی نظام بے فائدہ ہی نہیںنقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ایک بات طے ہے کہ اگر نظام کی افادیت کو صحیح معنوں میںگراس روٹ لیول تک پہنچانا مقصود ہے تو یہ حقیقت پسندانہ انداز فکر اور قربانی کے جذبے سے سرشار ہوئے بغیر ممکن نہیںاور قربانی ہمیشہ بڑوں کا ہی شیوہ ہوا کرتا ہے۔ اس میں بھی دو رائے نہیں کہ اگر چیک اینڈ بیلنس کا نظام مفقود یا کمزور ہو تو عوام کے ووٹ سے براہ راست منتخب ہو کر ہائوس میں سادہ اکثریت کی ضرورت سے بے نیا ز صدر آمرانہ سوچ کا اسیر ہو سکتا ہے۔لہٰذا اگر مثبت نتائج درکار ہیں تو مضبوط چیک اینڈ بیلنس سسٹم ضروری ہے۔اس مقصد کیلئے متعدد اقدامات کئے جا سکتے ہیںجن میں کرپشن،آئین شکنی،جسمانی و ذہنی معذوری،دیگر ملک کی شہریت کا حصول یا کوشش، اسلامی شعار کے منافی اقدام ،سنگین فوجداری جرم کا ارتکاب یا غداری وغیرہ کی صورت میں پارلیمان کی دو تہائی اکثریت سے نیک نیتی کے ساتھ صدر کا مواخذہ ممکن ہو اور روزمرہ متفرق بزنس کے سوا صدر کا ہر انتظامی حکم نوے روز کے اندر پارلیمان کی توثیق سے مشروط ہو اور یہ سب سپریم کورٹ کے جوڈیشل ریویو کے اختیار کے تابع ہو۔ پارلیمان ان ذمہ داریوں کے بعد صرف قانون سازی تک محدود ہو۔ چند میگا پراجیکٹس کے سوا تمام ترقیاتی کام بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہو،پبلک سروس کمیشن کے نظام میں ٹرانسپیرنسی کو یقینی بناتے ہوئے تمام محکموں میں بھرتیوں کو کمیشن کی سفارشات سے مشروط کر دیا جائے ، تعزیرات پاکستان میں ترمیم کرکے کرپشن، کک بیک اور سفارش کو بھی سنگین جرم قرار دے کر ان لعنتوں کی حوصلہ شکنی کی جائے اور سنگین نوعیت کے جرائم کے علاوہ کسی بھی جرم میں مقدمہ کا ٹرائل سمری ہو اور سزاء میں قید کوعدم ادائیگی جرمانہ سے مشروط کر کے سنگل اپیل کا نظام وضح کر دیا جائے۔ نظام عدل میں اصلاحات اس انداز سے کی جائیں کہ بلا تخصیص مذہب و جنس کمزور کیلئے انصاف مشکل نہ رہے بلکہ فوری اور سستا انصاف یقینی ہو ۔ رحم کی اپیل کا صدارتی اختیار سرے سے ختم کر نا ممکن نہ ہو تو اسے انتہائی محدود کر کے سپریم کورٹ کے جوڈیشل ریویو کے اختیار کے تابع کر دیا جائے ۔ پولیس کے نظام میں خاص طور پر اصلاحات کی جائیں اور اسے حکمرانوں کی خدمت تک محدود رکھنے کی بجائے صحیح معنوں میں عوام کا خادم بنایا جائے۔تفتیش کے نظام کو بہترکرنے کیلئے سزائے موت والے مقدمات کی تفتیش اے ایس آئی اور سب انسپکٹر کی بجائے ایس پی سطح کے افسروں کو سونپی جائے۔ انہیں محض سپروائزری نوعیت کے کا م تک محدود رکھنے کی بجائے اصل کام پر مامور کر کے ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے ۔ اداروں کا آزاد ہونا ضروری ہے تاکہ یہ اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔جب تک اداروں کی آزادی کو نچلی سطح تک یقینی نہیں بنایا جاتا اختیارات کی مرکزیت رہے گی اور لا محالہ کوئی بھی فرد واحد اختیارات کے ارتکاز کا غلط استعمال کر سکتا ہے ۔جب تک اختیارات کے ارتکاز کا توڑ نہیں کیا جاتا، آمرانہ سوچ غالب رہے گی۔یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا پارلیمانی نظام میں رہتے ہوئے اصلاحات ممکن نہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ پارلیمانی نظام میں ایک بے قصور وزیر اعظم کو بھی محض اکثریت کھونے پر ہٹایا جا سکتا ہے لہٰذا وزیراعظم کسی صورت بھی اراکین پارلیمان کی ناراضگی مول لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔یوں ان لوگوں کیلئے قانون سے بالاتر رہنے کی راہیں ہموار رہتی ہیں۔ جبکہ صدارتی نظام میں صدر کے مواخذہ کیلئے اس کا قصور ثابت کرنا پڑتاہے۔ اسے محض ہائوس میں اکثریت کھونے کی بنا پر ہٹایا نہیں جا سکتا۔لہٰذا اصلاحات کے ذریعے صدارتی نظام کو نہ صرف آمرانہ ذہنیت سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے بلکہ زیادہ بہتر طور پر عوامی امنگوں کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔جہاں تک وفاق میں شامل چھوٹی اکائیوں کی حق تلفی جیسے خدشات کا تعلق ہے تو اسکے روشن امکانات عدم توجہی کی صورت میں پارلیمانی نظام میں بھی کم نہیں۔ چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی جیسی شکایات اکثر سننے کو ملتی ہیں ۔چونکہ ملکی سلامتی ہمیشہ مقدم ہوتی ہے لہٰذا ان کا صحیح معنوں میں ازالہ ہی ملکی بقاء کا ضامن ہو سکتا ہے۔ صدارتی نظام میں اگر صدر کا چنائو صوبوں کے کل اوسط ووٹ کی بنا پر کیا جائے اور دیکھا جائے کہ صدارتی انتخاب کی دوڑ میں کس امیدوار نے ہر صوبے سے زیادہ اوسط ووٹ حاصل کئے ہیں۔ تو نہ صرف صوبوں کی حق تلفی جیسے خدشات سے نجات مل سکتی ہے بلکہ قومی یکجہتی کے ماحول میں رکاوٹوں کا قلع قمع یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ جب امیدوار کی کامیابی کا دارو مدار بہتر اوسط ووٹ پر ہوگا تو چھوٹے یا بڑے صوبوں میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔چھوٹے صوبے کا رہائشی امیدوار بھی صدارت کا انتخاب جیت سکے گا اور بلدیاتی اداروں کا دائرہ کار بڑھانے سے وسائل کی غیر مساوی تقسیم کے مسئلہ میں بھی وقت کے ساتھ سلجھائو کی راہیں ہموار ہوتی جائیں گی ۔ یوں نہ صرف مرکز گریز قوتوں کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ قومی یگانگت کا جذبہ فروغ پائے گابلکہ ملکی سا لمیت اور معاشی ترقی کیخلاف دشمن کے ناپاک عزائم خود بخود خاک میں مل سکیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم محض خدشات کو بنیادبنا کر مایوس ہونے کی بجائے خدشات کا ممکنہ حل تلاش کر کے ایک مستعد ، منضبط اور منصفانہ نظام پر غور کریں جو ملک کو ترقی کی منزل سے ہمکنار کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی دشواریوں کے حل کی صلاحیت رکھتا ہوتاکہ قائد اعظم ؒ کے پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔