اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ نے نیب میں غیر قانونی تقرریوں کے خلاف از خود نوٹس مقدمہ کی سماعت کے دوران نیب کے چار ڈی جیز( ڈی جی لاہور میجر ریٹائرڈ برہان علی، ڈی جی کوئٹہ میجر ریٹائرڈ طارق محمود، ڈی جی کراچی میجر ریٹائرڈ شبیر احمد اور ڈی جی آگاہی مہم عالیہ رشید کو فوری طور پر ان کے عہدوں سے ہٹانے کا حکم جاری کردیا ہے ، چاروں متاثرہ افسروں کو پنشن اور دیگر مراعات دی جائیں گی، عدالت نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن طاہر شہباز کی سربراہی میں ،ڈی جی، ( ایچ آر) نیب اورایف پی ایس سی کے چیئرمین کے نامزد ایک کمشن کے ممبر پر مشتمل تین رکنی جانچ پڑتال کمیٹی تشکیل دینے کا حکم جاری کرتے ہوئے غیر قانونی ترقیاں پانے والے 102افسروں اور تقرری کے وقت مطلوبہ تجربہ نہ رکھنے کے حامل 95افسران سے متعلق فیصلہ کرنے کی ہدایت بھی کی ہے ، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ہم ایک جانچ پڑتال کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں، جو اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کرے گی، جس پر درخواست گزار افسروں کے وکیل نے کہا کہ انہیں نیب کے کسی افسر پر بھی اعتماد نہیں ہے اس لئے استدعا ہے کہ کمیٹی میں نیب کا کوئی بندہ شامل نہ کیا جائے تو جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ہمارے ملک میں روایت بن چکی ہے کہ ایماندار کو بے ایمان قرار دیا جاتا ہے، اب اس پر اتفاق رائے ہو چکا ہے ، آپ کے موکلین کے پاس اپیل کا حق ہوگا، اگر انہیں غلط طور پر ہٹایا گیا تو وہ متعلقہ فورم سے رجوع کرسکتے ہیں، اگر سپریم کورٹ نے کسی کو ہٹا دیا تو وہ اپیل کے حق سے محروم ہو جائے گا، ڈائریکٹر جنرل ، عالیہ رشید نے کہا کہ نیب کو اپنا تاثر درست کرنے کے لئے ایک سافٹ چہرے کی ضرورت تھی، اس لئے مجھے وہاں پر مقرر کیا گیاتھا ،جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دئیے کہ نیب کو سافٹ نہیں سٹیل کے چہروں کی ضرورت ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے چیئرمین نیب کو کہا کہ اگر آپ کو عالیہ رشید کی اتنی ہی ضرورت ہے تو نیب میں کھیلوں کا شعبہ بنا کر اس میں انہیں بطور کنسلٹنٹ بھرتی کرلیں، جس پروہ بھری عدالت میں رو پڑیں تو جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ قانون میں جذبات کی کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے، عالیہ رشید کے وکیل نے کہا کہ انکی موکلہ کو نیب میں خدمات دیتے ہوئے 25 سال ہو گئے ہیں، ملازمت سے فارغ ہونے کی صورت میں وہ خالی ہاتھ اپنے گھر جائیں گی، جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ عدالت پشاور کے ایک مقدمہ میں فیصلہ دے چکی ہے کہ جن کنٹریکٹ ملازمین کی ملازمت کا بہت زیادہ عرصہ ہو چکا ہوانہیں مراعات کے ساتھ ہی فارغ کیا جا سکتا ہے، انہوں نے چیئرمین نیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگرنیب میں تقرریاں ،ترقیاں اور تعیناتیاں درست طور پر کی گئی ہوتیں تو آج نیب کا ڈھانچہ فعال ہوتا اور نیب یہاںآکر یہ نہ کہتا کہ فلاں چیز ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ہے، جس پر چیئرمین نیب نے کہا کہ میرے ساڑھے تین سالہ دور میں نیب میں ( این ٹی ایس) کے ذریعے 110 خالی اسامیوں پرتقرریاں ہوئی ہیں، میں تمام معاملات کو میرٹ پر دیکھتا ہوں اسی وجہ سے میرے دور میں کی گئی تقرریوں کو سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے درست قرار دیا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے درست تقرریاں کی ہونگی لیکن جس چیئرمین نے غلط تقرریاں کی تھیں اس کا نام پوچھنے پر بھی آپ ہمیں نہیں بتائینگے،ہماری کسی کے ساتھ کوئی ذاتی عداوت نہیں ہے بلکہ قانون کے مطابق فیصلہ کر رہے ہیں، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ قانون کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کررہے ہیں،یہ نہیں ہو سکتا کہ میچ جیتنے پرکسی کھلاڑی کو انسپکٹر یا ڈی ایس پی مقرر کردیا جائے ،اگر وزیر اعظم نے اپنے اختیارات کھلاڑیوں کے حوالے سے استعمال کرنے ہیں تو اداروں میں کھیلوں کا بھی ایک شعبہ بنا دیناچاہیئے، عدالت نے چیئرمین نیب کو 4 افسروں کو فوری طور پر ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم جاری کیا جبکہ ڈی جی نیب عثمان مجید کو ملازمت کے لئے اہل قرار دے دیا ،نیب کے دیگر پانچ اہلکاروں محمد فہد ،یاسرمحمود ،کریم بخش اور ہرمون بھٹی کو ہائیر ایجوکیشن سے(ایکولینس سرٹیفکیٹس )ایک ماہ کے اندر اندر پیش کرنے کی ہدایت کی ،عدالت نے ان کے وکیل کی مرضی سے لکھا کہ اگر وہ اس عرصہ تک مصدقہ ڈگریاں پیش نہ کرسکے تو انہیں بھی فارغ کردیا جائے گا جبکہ ایک اور افسر عدنان شہزاد اصغر کی استدعا پر انہیں ان کے اصل ادارہ یعنی نیشنل بنک میں بھجوانے کا حکم جاری کیا ،جبکہ نیشنل بنک کے صدر کوحکم دیا کہ وہ انہیں ادارہ میں واپس لیتے ہوئے ان کے بیج میٹس کے مساوی ترقی اور مراعات بھی دیں ، عدالت نے مزید ہدایت کی ہے کہ مذکورہ وجوہات کی بناء پر خالی ہونے والی اسامیوں پر تین ماہ کے اندر اندر فیڈرل پبلک سروس کمشن کے ذریعے پْر کی جائیں اور متاثرہ افسروں کو انکی اہلیت کے مطابق نئی اسامیوں کیلئے مقابلہ کے امتحان میں شامل ہونیکا حق حاصل ہوگا۔