حالات طوفان کی آنکھ کی طرف بڑھ رہے ہیں

پاکستان میں ڈالر کا انٹر بینک ریٹ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 115.007 روپے تک پہنچ چکا ہے جو چند روز قبل 110 روپے اور 57 پیسے تھا۔ اس طوفان کی روک تھام کے لئے حکومت نے کسی مداخلت کی فوری کاوش نہیں کی۔ چنانچہ ڈالر کے انٹر بینک ریٹ میں اچانک اضافے کے باعث کرنسی ڈیلرز نے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی فروخت بند کر دی۔ سٹیٹ بینک نے ڈالر کا انٹر بینک ریٹ 115.007 روپے مقرر کیا ۔ قدرتی طور پر سونے کا ریٹ بھی اوپر بڑھ گیا اور مہنگائی کے طوفان نے ملک کو ایک ہولناک گرفت میں لے لیا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف بینکنگ اینڈ فنانس کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد حسن قریشی نے کہا ہے کہ حکومت کے آئی ایم ایف سے قرضے نہ لینے کے فیصلے پر ایک سازش کے تحت بنکوں کے ذریعے پاکستانی روپے کی قدر گرائی گئی ہے کیونکہ ملک کے بنکاری نظام کا بڑا حصہ غیر ملکیوں کی ملکیت ہے۔ یہ بات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے نوائے وقت سے ایک خصوصی گفتگو کے دوران کہی ہے کہ پاکستان کا بیرونی شعبہ بحران کا شکار تھا۔ آیا یہ کوئی پردہ کی یا سیکرٹ بات ہے جس کا ڈاکٹر صاحب نے طوفان کی آنکھ سے ٹکرانے کے بعد یوں ذکر فرمایا ہے۔ حکومت پاکستان وفاقی وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک آف پاکستان مالیات اور معاشیات کے تمام متعلقہ محکموں اور اداروں کی کنٹرولنگ اتھارٹی ہیں۔ کیا یہ سب کچھ راتوں رات اچانک ہو گیا ہے یا ایک عرصہ سے تمام متعلقہ اداروں کو اردگرد کے اندرونی اور بیرونی حالات پر نظر رکھنے والے ہر شخص کو بہت پہلے سے اس آنے والے طوفان کی وارننگ ہونی چاہئے تھی۔
صرف چند روز پہلے 20 مارچ 2018ء کو پاکستان نیشنل فورم نے لاہور کی ایک مقامی کلب میں PAKISTAN'S ECONOMIC VULNERABILITIES AND EXTERNAL DYNAMICS سیمینار منعقد کیا تھا جس کی صدارت سابق چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل یستور الحق ملک نے کی تھی۔ اس تقریب کے مہمان خاص اور KEY NOTE SPEAKER جناب حفیظ اے پاشا تھے جو پاکستان کے سابق وزیر خزانہ‘ وزیر تجارت اور پلاننگ ہونے کے علاوہ یونیورسٹی آف کراچی کے سابق وائس چانسلر رہ چکے ہیں ان کے علاوہ لیفٹیننٹ جنرل ہمایوں بنگش سابق کور کمانڈر لاہور آئی جی ایف سی پشاور اور چیئرمین نیب رہ چکے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل نصیر اختر سابق کور کمانڈر کراچی‘ ائیر مارشل خورشید انور مرزا‘ جناب خالد محمود سابق فیڈرل سیکرٹری محتسب پنجاب اور چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ رہ چکے ہیں۔ جناب نواز ٹوانہ سابق ایم ڈی پی آئی اے جناب اے یو سلیم‘ سابق ایم ڈی ایل ڈی اے چیئرمین پنجاب پبلک سروس کمیشن جناب شمشاد احمد خان سابق سیکرٹری خارجہ‘ جناب جمیل اے ناز سابق قونصل جنرل انڈونیشیا اور لائف ممبر پنجاب چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری جناب آصف حیات اور شوکت جاوید سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب کے علاوہ جنرل میاں ندیم اعجاز احمد‘ ائیر مارشل انور محمود خان اور ائیر وائس مارشل امجد حسین کے علاوہ دیگر کئی ممتاز شخصیات نے اس سیمینار میں حاضرین کو آنے والے مالی و معاشی خطرات اور حالات سے خبردار کرتے ہوئے اعلیٰ ترین سطح پر حالات سے نمٹنے اور قومی اتحاد‘ ایمان اور تنظیم کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ پاکستان نیشنل فورم کے صدر کرنل (ر) اکرام اللہ خان نے یہاں تک وارننگ دی تھی کہ پاکستان بڑی تیزی سے طوفان کی آنکھ سے ٹکرانے کیلئے ایک خوفناک صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ ملک کی سیاسی قیادت اور دیگر طبقات اندرونی اختلافات میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ ملک کے اندر گڈ گورننس قومی سکیورٹی اور ملک کی معیشت خارجہ حالات اور دفاعی سرحدی صورتحال سے بھی غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہیں۔ اس موقع پر پاکستان نیشنل فورم نے ایک پریس ہینڈ آئوٹ جاری کیا جس کے شائع ہونے پر آنے والے بحران اور وطن عزیز کو درپیش مصائب و مشکلات بھی قارئین کرام کے سامنے آ جائیں گی۔ صرف ایک مختصر کالم میں سب کچھ کہنا ممکن نہیں اور سب کچھ میں بعض دفاعی اور حساس معاملات کھل کر بیان نہیں کئے جا سکتے۔ یہی حال محکمہ خارجہ کے حساس معاملات کا ہے۔ پچھلے چند سالوں سے اہم وزارتوں کا چارج جن میں وزارت خارجہ‘ وزارت دفاع اور دیگر کئی اہم وزارتیں شامل ہیں ان کا قلمدان وزیراعظم کے اپنے ہاتھ میں تھا جس کے باعث گڈ گورننس پر منفی نتائج آج سامنے آ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اس مروجہ تمام طاقت کے ایک ہاتھ میں مرکوز ہو جانے کے باعث گڈ گورننس کو شدید دھچکہ لگا ہے۔ کئی سالوں سے وطن عزیز دہشت گردی کی لپیٹ کے باعث حالت جنگ میں ہے لیکن زمینی حالات کا نا گفتہ بے ہونا صاف اظہر من شمس ہونے کے باوجود کہیں بھی حالت جنگ جس میں ملک و قوم مبتلا ہے اس کا احساس نہیں ہوتا۔ کہنے کو تو تمام سیاسی پارٹیاں جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں لیکن کڑوا سچ یہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی پر کوئی نہ کوئی خاندان قابض ہے گزشتہ تقریباً 10 سالوں سے شخصی حکومت کا راج ہے اور پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں جتنے اندرونی و بیرونی قرضے وطن عزیز کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہیں ان کا بیشتر حصہ گزشتہ 10 سالہ اقتصادی بحران کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہیں۔ اس دورانیہ میں جمہوریت کا دور دورہ رہا ہے لیکن حقیقت میں خاندانی اور شخصی حکومت نے اپنا گھیرا اس قدر عوام کے گرد تنگ کر رکھا ہے کو کوئی ایک سیاسی پارٹی وفاق کو مضبوط بنانے کی بجائے چاروں صوبوں میں اپنی سیاسی اپنی سیاسی جڑیں اور بنیادیں مضبوط نہ ہونے کے باعث وفاق کو طرح طرح کے خطرات و خدشات درپیش ہیں۔ جو بعض حلقوں کو 1970ء اور 1971ء کی یاد دلاتے ہیں۔ موجودہ حکمران جماعت کے سربراہ سیاسی خاندان مقدمات کی لپیٹ میں ہیں اور عین اس وقت جبکہ آنے والے عام انتخابات کا مرحلہ سر پر ہے قوم اس قدر مایوس ہے کہ سیاسی افق ماضی سے سبق لیکر مستقبل کیلئے ایک شفاف ماحول میں ایک واضح مستقبل کی طرف آگے بڑھے۔ تمام افق پر جس میں اندرونی اور بیرونی مطلع شامل ہیں ایک انتشار کا شکار ہیں۔ ایک طرف انتخابات کی تیاریاں ہیں تو دوسری طرف نئی سیاسی جماعتیں یا ایک عرصہ خواب گراں میں سوئے ہوئے گروہ مثلاً متحدہ مجلس عمل پھر سے کروٹ لیکر وجود میںآ گئی ہے۔ مولانا فضل الرحمن ایم ایم اے کے صدر اور محترم جناب لیاقت بلوچ سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے ہیں۔ چند دنوں سے نگران وزیراعظم کے لئے بھی مختلف نام اخبارات میں آ رہے ہیں۔ قابل غور امر یہ ہے کہ ملک کی بنیادی اور مستند سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ نون‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان تحریک انصاف میں سے کوئی نمایاں نام سامنے نہیں آیا اور سینٹ کے حالیہ انتخابات میں ایک نہایت اہم فیکٹر یہ سامنے آیا ہے کہ عوام ماضی کی تمام جماعتوں سے اگر بیزار نہیں تو مایوس ضرور ہیں۔ اندرون خانہ یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر جو نیا نقشہ ابھر رہا ہے اس میں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں اندرونی و بیرونی سٹرٹیجک فیصلے جس میں اکنامک اور مالیات و معاشی شعبہ سرفہرست ہے پاکستان کے فیصلے پاکستان کے اندر ہونے چاہئیں۔ ہمارے ماضی کے تجربے نہایت تلخ ہیں اور ہم نے مغرب کی ڈکٹیشن پر آج تک جو وزیراعظم یا نگران وزیراعظم اور وزیر خارجہ و وزیر خزانہ مقرر کئے ہیں ان کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔

کرنل (ر) اکرام اللہ....قندیل

ای پیپر دی نیشن