پلوامہ حملے کی تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ ! جھوٹ کا پلندہ بھارتی الزامات اور آرمی چیف کا ٹھوس جواب
دفتر خارجہ کی جانب سے گزشتہ روز پلوامہ حملے کی تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ پر غیرملکی سفارتکاروں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ بھارتی دستاویز کی روشنی میں 54‘ افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کی گئی تاہم ان کا پلوامہ حملے سے تعلق ثابت نہیں ہو سکا۔ دفتر خارجہ کی اس بریفنگ میں بتایا گیا کہ بھارتی ڈوزیئر میں مسعود اظہر کا ذکر تک نہیں ہے۔ بریفنگ میں غیرملکی سفارتکاروں کے علاوہ پاکستان کے اٹارنی جنرل‘ سیکرٹری خارجہ‘ سیکرٹری داخلہ اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بھی موجود تھے۔ اس موقع پر شرکاء کو بتایا گیا کہ بھارت کی جانب سے ملنے والی دستاویز کے فوری بعد پاکستان نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی اور 54‘ افراد کو حراست میں لیا۔ بھارتی دستاویز 91 صفحات پر مشتمل تھی جس کے چھ حصے تھے۔ دستاویز کے پارٹ 2 اور 3 پلوامہ حملے سے متعلق تھے اور باقی حصے عام الزامات پر مبنی تھے۔ پاکستان نے بھارت کی فراہم کردہ معلومات کو فوکس کیا‘ تکنیکی معاملات کو دیکھا اور سوشل میڈیا پر دستیاب معلومات کا بھی جائزہ لیا۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ بھارت سے مزید معلومات اور دستاویزات درکار ہیں۔ پاکستان پلوامہ حملے سے متعلق بھارتی الزامات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ بھارت نے جن 22 مقامات کی نشاندہی کی تھی‘ ان کا بھی معائنہ کیا گیا ہے تاہم ان 22 مقامات پر کسی کیمپ کا کوئی وجود نہیں۔ پاکستان درخواست پر بھارت کو ان مقامات کا دورہ بھی کرا سکتا ہے۔ ابتدائی تحقیقات میں پاکستان کا پلوامہ واقعہ سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا۔ اس موقع پر ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ بھارت کو مذاکرات کی بار بار پیشکش کی گئی تاہم بھارت نے اس کا مثبت جواب نہیں دیا جبکہ بھارت کی جانب سے اٹھائے گئے تمام سوالات کے جواب دیئے گئے ہیں۔ دوسری جانب بھارتی وزارت خارجہ نے پلوامہ واقعہ پر اپنے ڈوزیئر کے پاکستانی جواب پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کٹ حجتی کا مظاہرہ کیا کہ ہمیں پاکستان کے جواب سے مایوسی ہوئی ہے جبکہ مسعود اظہر پاکستان ہی میں موجود ہیں۔
بھارت نے درحقیقت پاکستان پر دشنام طرازی اور ہر دہشت گردی کا ناطہ بلاتحقیق پاکستان کے ساتھ جوڑنے کے سوا آج تک کچھ نہیں کیا۔ اس کا اصل ایجنڈا تو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے اور اقوام عالم میں تنہاء کرنے کا ہے جس کیلئے وہ پاکستان کے حوالے سے فرضی اور من گھڑت کہانیاں گھڑتا رہتا ہے اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف کسی بھی سازش کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اگر وہ پاکستان کی خودمختاری کو خلوص نیت کے ساتھ قبول کرکے دوطرفہ سازگار تعلقات کی راہ ہموار کرے اور علاقے کی ترقی اور یہاں کے عوام کی خوشحالی و آسودگی کیلئے پاکستان کے ساتھ باہم مل کر کام کرنے پر آمادہ ہو تو پھر دونوں ممالک کے مابین کسی قسم کا تنازعہ پیدا ہی نہ ہو مگر بھارت کی تو شروع دن کی نیت ہی پاکستان کے ساتھ فساد پیدا کئے رکھنے کی ہے جس کیلئے وہ مختلف سازشوں کے تانے بانے بنتے رہتا ہے جبکہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف اسکی بدنیتی میں سانحۂ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی کوئی فرق نہیں پڑا اور مودی سرکار نے تو پاکستان دشمنی میں سفارتی ادب آداب اور عالمی قوانین کی بھی دھجیاں بکھیری ہیں جس نے عملاً پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کا حکمران بی جے پی کا ایجنڈا حکومتی پالیسیوں کا حصہ بنا رکھا ہے جس کے تحت کنٹرول لائن پر کشیدگی برقرار رکھنے کیلئے مودی سرکار نے بھارتی فوج کو بلاوجہ کی اشتعال انگیزیوں پر لگا رکھا ہے اور اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں حق خودارادیت کے متقاضی کشمیری عوام کی آواز دبانے کیلئے بھی بھارت کی سکیورٹی فورسز کے مظالم انتہاء تک پہنچائے گئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت اپنے ہی پیدا کردہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کی راہ پر بھی نہیں آتا اور ہر سطح کے باہمی مذاکرات اس نے خود سبوتاژ کئے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ پاکستان پر دراندازی اور دہشت گردی کے حوالے سے الزام تراشی بھارت نے اپنی عادت ثانیہ بنا رکھی ہے جبکہ یہ حربے وہ دوطرفہ مذاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھنے دینے کیلئے اختیار کرتا ہے۔
تقسیم ہند کے ایجنڈے کے مطابق خودمختار ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق فطری امر تھا جس کے راستے بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کرکے مسدود کئے اور پھر کشمیر پر اٹوٹ انگ والی رٹ لگالی جو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی ہی اسکی بدنیتی تھی۔ پاکستان نے اسکے باوجود کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیکر کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کا دامے‘ درمے‘ سخنے ساتھ دینا اپنی قومی پالیسی کا حصہ بنایا۔ اسی بنیاد پر پاکستان کشمیر کی بھارتی تسلط سے آزادی کا اصولی موقف رکھتا ہے جس کا ہر عالمی اور علاقائی فورم پر باضابطہ اظہار بھی کیا جاتا ہے اور یواین قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کا تقاضا بھی کیا جاتا ہے جبکہ بھارت پاکستان کو اس اصولی موقف سے ہٹانے کیلئے اس پر دراندازی اور دہشت گردی کے الزامات عائد کرتا ہے اور کسی نہ کسی دہشت گردی کا پاکستان پر ملبہ ڈالنے کی سازشیں تیار کرتا ہے۔ اسے اپنے ایسے الزامات کا ثبوت فراہم کرنے سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ دسمبر 2008ء کے ممبئی حملوں کا ملبہ بھی بھارت نے اسی سازش کے تحت ان حملوں کے دوران ہی پاکستان پر ڈال دیا اور نئی دہلی میں جاری پاکستان بھارت وزرائے خارجہ کے باضابطہ مذاکرات کی بساط بھی الٹا دی جس کے بعد پاکستان کو کشمیر بھول جانے کا رعونت بھرا پیغام دیا گیا۔ اسکے بعد سے اب تک کشمیر اور پانی سمیت کسی بھی ایشو پر بھارت نے پاکستان کے ساتھ کسی بھی سطح کے باضابطہ مذاکرات کی نوبت نہیں آنے دی اور اسکے برعکس پاکستان کیخلاف جنگی جنون بڑھانے کا راستہ اختیار کرلیا چنانچہ ہارٹ آف دی ایشیاء کانفرنس سے سارک سربراہ کانفرنس تک بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار نہیں ہونے دی جبکہ امرتسر پولیس تھانے پر حملے سے اڑی حملے تک بھارت نے پاکستان پر دشنام طرازی اور دہشت گردی کا ملبہ اس پر ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
پاکستان دشمن بھارتیہ جنتا پارٹی نے تو اپنے اقتدار کا آغاز ہی بھارت میں پاکستان دشمن ماحول گرما کر کیا چنانچہ مودی اپنے اقتدار کے پہلے روز سے اب تک پاکستان کی سلامتی کیخلاف ہذیانی کیفیت کا شکار ہیں اور گیدڑ بھبکیاں لگاتے رہتے ہیں جس کے باعث عالمی برادری بجا طور پر بھارت کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو سنگین خطرات میں گھرا ہوا محسوس کرتی ہے جبکہ پاکستان کی سلامتی کے تحفظ اور دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کی خاطر عساکر پاکستان کو ہمہ وقت مستعد و چوکس رکھنا اور ایٹمی بٹن انکے مضبوط و محفوظ ہاتھوں میں دینا ہماری مجبوری بن چکا ہے۔ پاکستان کو اس راہ پر درحقیقت بھارت نے ہی اسکی سلامتی چیلنج کرتے ہوئے لگایا ہے مگر مودی سرکار بھارت کے اندر بھی پاکستان دشمنی کا چورن بیچ نہیں پائی جس کے جارحانہ عزائم کی بنیاد پر عالمی اور علاقائی امن و سلامتی کو خطرہ محسوس کرکے بھارت کے مختلف حلقوں کی جانب سے بھی مودی سرکار کیخلاف آوازیں اٹھتی رہتی ہیں جس کے باعث مودی سرکار کو آنیوالے انتخابات میں اپنی شکست نوشتۂ دیوار نظر آنے لگی تو اس نے پاکستان دشمنی کا ماحول گرمانے کیلئے مزید جارحانہ طرز عمل اختیار کرلیا اور مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا سلسلہ بھی تیز کر دیا۔ انہی حالات میں پلوامہ میں بھارتی فوجی قافلے پر خودکش حملہ ہوا جس کا اس حملے کے ساتھ ہی مودی سرکار نے پاکستان پر الزام دھر دیا جو بھارت کی طے شدہ حکمت عملی کی چغلی کھا رہا تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ مودی نے خود پاکستان سے بدلہ لینے اور اسکے اندر گھس کر مارنے کی گیدڑ بھبکیوں کا سلسلہ شروع کر دیا جس کا پاکستان کی سول اور عسکری قیادتوں کو ملک کی سلامتی کے تقاضوں کے تحت ٹھوس جواب دینا پڑا مگر ہذیانی کیفیت میں مبتلا مودی سرکار عملاً باولی ہوگئی اور اس نے بھارتی فضائیہ کے ذریعے پاکستان کی فضائی حدود میں دراندازی کرکے بالاکوٹ کے ویرانے میں پے لوڈ گرا دیا اور ساتھ ہی مبینہ دہشت گردوں کا کیمپ تباہ اور تین سو سے زائد افراد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ شروع کر دیا جو قطعی باطل ثابت ہوا کیونکہ پے لوڈ گرنے سے پاکستان کے اندر کوئی جانی اور مالی نقصان ہوا ہی نہیں تھا۔
جب بھارتی فضائیہ نے اگلے روز بھی پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہونے کی حماقت کی تو پہلے سے چوکس پاک فضائیہ کے دستے نے دو بھارتی جہاز گرا کر مودی سرکار کے سارے دعوے خاک میں ملا دیئے۔ مودی سرکار درحقیقت مکر و فریب کی بنیاد پر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتی ہے مگر آج عالمی برادری بھارت کی جنونیت سے لاحق ہونیوالے خطرات سے مکمل آگاہ ہے اس لئے عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں نے پاکستان بھارت کشیدگی ختم کرانے کیلئے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں جبکہ پاکستان کو بھارتی جارحانہ عزائم کی بنیاد پر اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے بہرصورت تمام ممکنہ اقدامات اٹھانے کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا ہے۔ اس حوالے سے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا بھی جاچکا ہے جبکہ عساکر پاکستان ہمہ وقت مستعد و چوکس بھی ہیں۔ گزشتہ روز اسی تناظر میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئٹہ میں سکول آف انفنٹری میں خطاب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں باور کرایا ہے کہ دفاع وطن کیلئے عساکر پاکستان قوم کی توقعات پر پورا اتریں گی جو پہلے بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دے بھی چکی ہیں۔
پلوامہ حملے کے بارے میں پاکستان پر عائد کئے گئے بھارتی الزامات جھوٹ کا پلندہ اور قطعی بے بنیاد ثابت ہونے کے بعد مودی سرکار کو اب ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور علاقائی و عالمی امن و سلامتی کو اپنی جنونیت کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔