قرآن حکیم میں اللہ پاک کا ارشاد ہے "کوئی مصیبت اللہ کے حکم کے بغیر نہیں آتی اور جو کوئی اللہ پر ایمان لاتا ہے وہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے اور تم اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کریم ؐ کی فرمانبرداری کرو پھر اگر تم نے منہ موڑا تو ہمارے رسولؐ کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ صاف صاف بات پہنچا دے۔ اللہ وہ ہے جسکے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور مومنوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے"
آج پچھلے چند ماہ (دسمبر 2019) سے دنیا کے197ممالکCOVID-19 جیسے مہلک وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔(25 مارچ 2020ئ تک)4 لاکھ 20ہزارسے زیادہ افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں اور آنے والے دنوں میں ان کی تعداد مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ 19 ہزار کے قریب افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جبکہ 1 لاکھ 10 ہزار کے قریب افراد تندرست بھی ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ماہرین یہ کہتے ہیں کہ اس بیماری میں شرح اموات 3-2 فیصد ہے اور یہ بوڑھوں اور بچوں کو ان میں قوت مدافعت کم ہونے کی وجہ سے زیادہ متاثر کرتی ہے مگر اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق ہر عمر و جنس کے لوگ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ چائنہ کے صوبے ہوبے کے شہرووہان سے شروع ہونے والی اس بیماری نے دنیا کی معیشت کو تہ و بالا کر دیا ہے جس کے اثرات آئندہ آنے والے وقتوں میں واضح محسوس کیے جا سکیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ جہاں اس بیماری سے بچنے کے لئے بے شمار احتیاطی تدابیر بتائی جا رہی ہیں جس میں بار بار ہاتھ دھونے اور سماجی فاصلہ بر قرار رکھنے کے علاوہ گھروں میں کم از کم دو ہفتوں کے لئے لاک ڈائون شامل ہے۔ میرے نزدیک ہمارے لئے اس میں بے شمار اسباق پوشیدہ ہیں۔
1۔ آج وہ سرمایہ دارانہاور اشتراکی نظام جو اپنی سائنسی ترقی پر بے حد ناز کرتا تھا۔ جسے انسانی وسائل اور اپنی ٹیکنالوجی پر بے حد بھروسہ تھا۔ آج ایک وبائی مرض کی بدولت یہ نظام اپنے ہاتھ کھڑا کرتا نظر آیا اور اس نے آسمان والے کی طرف مدد کے لئے ہاتھ اٹھا دیے۔
2۔آج کا انسان جو انسان ترقی کی معراج کے لیے سماجی رابطوں میں بندھا ہوا اور گلوبلائزیشن کا متوالہ تھا۔ آج اپنی زندگی بچانے کے لئے سماجی فاصلوںکی بات کر رہا ہے اور شاید آنے والے وقت میں اسے اس کے دور رس نتائج کا سامنا بھی کرنا پڑے۔
3۔ ہر عمر، ہر مذہب، ہر جنس اور ہر رنگ و نسل کے لوگ اس بیماری سے بچنے اور لڑنے کے لئے یک قالب اور یک جاں نظر آنے لگے ہیں۔ یعنی اپنی زندگی بچانے کے لئے ایک پیج پر ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس وبا سے نمٹنے کے بعد یہی لوگ سماجی نا انصافی، غربت، جہالت اور ظلم و ستم کے خلاف بھی ایک پیج پر رہیں۔
4۔اسلام کے بتائے ہوئے اصول، کہ وبا کی صورت میں سفر اختیار نہ کرنا، صفائی کا خیال رکھنا، ہاتھ دھو کر کھانا کھانا، چھینکتے یا کھانستے وقت منہ پر ہاتھ یا رومال یا کہنی رکھنا ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہونا چاہیے تھے۔
5۔دنیا عالم میںCOVID-19کی تباہی دیکھنے کے باوجودہمارے غیر سنجیدہ رویے جس کے تحت یہ بیماری ہمارے ائیر پورٹس اور بارڈرز پر قرنطینہ کے غیر مناسب انتظامی امور کی وجہ سے ہمارے ملک میں پھیلی۔۔ اور پھر ہم نے اس ناگہانی آفت میں بھی آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے ذاتی حفاظتی سامان کے حصول کو مہنگا اور مشکل بنا دیا۔
6۔ بحیثیت مسلمان گزشتہ ہفتے جب ہم واقعہ معراج کی یاد منارہے تھے جس کے بارے میں شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال نے فرمایا کہ"سبق ملا ہے معراج مصطفے سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں"
یعنی کہ آج بھی اگر ہم اپنے خدا سے بھلایا ہوا رشتہ بحال کر لیں تو بحیثیت اشرف المخلوقات ہم اس کے کرم و عطا کے مظاہر کے اثرات اپنی آنکھوںکے سامنے دیکھ سکتے ہیں اور اسی دنیا کو انسانیت کی بھلائی کے معراج تک پہنچا سکتے ہیں۔
7۔عمرے کے زائرین پر پابندی، حج کے اجتماع کے انعقاد پر منڈلاتے ہوئے خطرے، عبادت گاہوں کے اجتماعات کی بندش، جنازوں میں شرکت پر پابندی، اولمپک کے کھیلوں کا التوا، ایک دوسرے سے رابطوں میں دوری کیا خدائے بزرگ و برتر کی ناراضگی کی طرف اشارہ تو نہیں کر رہی؟
8۔ اللہ پر توکل مگر احتیاط کے ساتھ، پہلے اونٹ باندھا جائے اور پھر اس کی حفاظت کی دعا کی جائے۔ پہلے بیماری سے بچنے کی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں اسکے بعد علاج کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور پھر دوا کے ساتھ اللہ رب العزت سے گڑگڑا کر دعا بھی مانگی جائے۔
9۔ اور پھر سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ کہیں سماجی رابطوں سے ہوتا ہوا زندگی کا یہ سفر سماجی فاصلے طے کرتا ہوا سماجی علیحدگی/اکیلے پن کی منزل پر جا کر ڈیرہ نہ ڈال لے جہاں ترقی یافتہ ممالک میں اس کا انجام خودکشی کے سوا کچھ نہیں۔
آج پوری عالمی قیادت/عالمی اداروں کے لیے لمحہ فکریہ کی بات یہ ہے کہ کیا یہ وبا بھی ہمیں کوئی سبق سکھائے بغیر دوسری وباوں کی طرح رخصت ہو جائے گی؟ کیا دنیا نے کبھی یہ سوچا کہ
"نا انصافی اور ظلم کی وبا سے بڑھ کربھی کوئی وبا آجتک اس دنیا میں موجود رہی ہے؟"
کیا یہ بات کہیں درست نہیں کہ "تخیل میں ایک تصویر بن رہی ہے
یہ دنیا رفتہ رفتہ کشمیر بن رہی ہے"
ہاں میرے نزدیکCOVID-19 کی یہ وبا دنیا بھر کے رہنماؤں کو یہ سبق دے کر جا رہی ہے کہ آج بھی اگر دنیا میں لوگوں کے ساتھ ظلم و نا انصافی کا رویہ بر قرار رکھا گیا۔ اگر آج بھی کشمیر، فلسطین، برما، شام، یمن اور دنیا بھر کے مظلوم انسانوں کو ظلم سے نجات نہ ملی تو شاید آسمان سے یہ وبائیں انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لئے مختلف اشکال میں نازل ہوتی رہیں گی۔
اے رب العالمین ہم تیرے کمزور و ناتواں بندے ہیں ہمیں تمام قسم کی وبائی امراض اور پریشانیوں سے نجات عطا فرما۔بقول نورالہدیٰ شاہ
مسجد بند
مندر بند
کلیسہ بند
مہ کدہ و بازار بند
ساغر و مینا و قربتِ یار بند
لمحۂِ وصل بند
بوسہِ محبوب بند
لمسِ دستِ وفا بند
دروازۂِ یار بند
دیدارِ دلدار بند
درِ طبیب و درِ حبیب بند
امید و شفا بند
دردِ دل کی دوا بند
بس اب پھر سے کْن کہہ دے
پھر سے فیکون کر
پھر سے میرا خریدار بن
٭…٭…٭