فاصلے نہیں، قربتیں

بے حس دنیا والوں کو لاک ڈائون کا مطلب سمجھانے کیلئے قدرت نے کرونا ارسال کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں 239دن کا لاک ڈائون کسی کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ زندگی مقفل کیسے کی جاتی ہے۔ اپنا ہی گھر حوالات بن جاتا ہے۔ لوگ خود ہی مالی اور جسمانی ریمانڈ کی طرف چلے جاتے ہیں۔ مودی اور اس کے سارے گورے نیلے پیلے کالے ہم نوا اب ضرور لاک ڈائون کا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔ کاش انہوں نے کشمیریوں پر رحم کھایا ہوتا۔ ابھی تو دیکھئے آگے آگے ہوتا ہے کیا۔ کیا کرونا سے ہٹ کر اور اسباب موت نہیں ہیں؟ موت تو ازل سے رنگ بدل بدل کے آتی رہی ہے اور آتی رہے گی لیکن ہر سبب موت سے بچنے کیلئے لاک ڈائون کو نہیں پکارا گیا اور اب بھی کیا لاک ڈائون اور کرفیو عزرائیل کا راستہ روک سکتا ہے؟ کافروں، مشرکوں کے مقلد بن کر ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ توکل اور یقین کے بل بوتے پر زندگی رواں دواں رکھی جائے ۔ شیطان تو اپنی کامیابی پر لڈیاں ڈال رہا ہے کہ اس نے کل مذاہب عالم کی عبادت گاہوں پر تالے ڈلوا دیئے ہیں۔ اللہ ہی نہیں، اللہ والوں کے گھر (مزارات) بھی مقفل ہیں۔ راتوں کو اذانیں دی جا رہی ہیں اگر دن کو تمام مساجد، مدرسے اور مزارات کھل جائیں تو ہر طرف ذکر اذکار کی گونج سنائی دے گی۔ عورتیں بھی گھروںمیں قرآن خوانی اور محافل میلاد و درس کا اہتمام کریں گی۔ دینی اجتماعات منعقد ہوں گے۔ کہا جاتا ہے کہ تراویح نفلی نماز ہے ،گھروں میں پڑھنے کی تلقین کی جائے گی۔ گویا رمضان المبارک میں تراویح اور افطار پارٹیاں مفقود ہونے سے قرب الٰہی نصیب ہوگا یا پھر رب سے فاصلہ اور بڑھ جائے گا۔اہل ایمان اور کفار و مشرکین کے عقائد اور یقین میں فرق واضح طور پر دکھائی دینا چاہئے۔ کل عالم قیامت سے پہلے قیامت کا مزہ چکھنے پر مجبور ہے۔ کرونا وائرس میں کمی یا واپسی کی خبر کہیں سے نہیں آرہی۔ یہ جنگل کی آگ ہے جو فائربریگیڈ سے نہیں بجھتی۔ قوموں پر اتنے بڑے بڑے عذاب آئے، قرآن میں تباہ شدہ بستیوں کا کتنا ذکر ہے۔ ہم نے کتنی ہی قومیں ہلاک کر دیں، کیا آپ ان میں سے کسی ایک کو محسوس کرتے ہیں یا ان کی کوئی بھنک یا آہٹ بھی سنتے ہیں؟ ہر روز متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا سن کر طبیعت مایوسی کی طرف چلی جاتی ہے، وہ کچھ ہو رہا ہے جس کا سوچا بھی نہ تھا۔ بڑے بڑے لوگ تنہائی اختیار کر رہے ہیں۔ آخر کب تک؟ لاک ڈائون بھی آخر کب تک؟ فی الحال تو ہر انسان خسارے میں دکھائی دے رہا ہے، نماز اور عبادات کی ادائیگی میں عدم تسلسل خسارہ ہی تو ہے۔ کاروبار زندگی بند ہوگا۔ خسارہ نہیں تو اور کیا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں کو ان کا کمایا ہوا مال ان کے کام نہیں آئے گا۔ اشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والے کیسے خداپرست ہو سکتے ہیں۔ قرآن کی زبان میںیہ پھٹکارے ہوئے لوگ یعنی ملعونین ہیں۔ جمعہ اجتماعات کا نہ ہونا بدنصیبی اور خسارہ نہیں تو اور کیا ہے؟ ایک دن کے یوم توبہ سے بات نہیں بنے گی، ہر روزیوم توبہ منانا پڑے گا تب اللہ مانے گا۔ جس شہر کی اللہ نے قسم کھائی وہاں کرفیو ہے، مکہ مکرمہ میں کرفیو کے دوران تدفین کے اوقات مقرر کئے گئے ہیں۔ خوف الٰہی سے زیادہ خوف کرونا نے آلیا۔ اجتماعی طور پر توبہ و استغفار کیلئے مساجد اور مدارس کا رات دن کھلا ہونا ضروری ہے ۔ اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاروں نے پاکستان سے اپنا پیسہ نکالنا شروع کر دیا ہے۔ ڈالر 166.15روپے کا ہوگیا ہے۔ عمران خان آئے تو 124کا تھا، ڈالر کے مقابلے میں ایک روپے گرنے سے قرضے میں 100ارب کا اضافہ ہوتا ہے۔ اس وقت شرح سود 6 فیصدتھی پھر 13.5ہوئی اور اب ڈیڑھ فیصد کمی ہوئی ہے۔ پچھلے سال 1900ارب سود کی مد میں گئے۔ اس سال 3000ارب سود کو ادا کرنے ہیں۔ ڈالر کی اونچی اڑان سے قرضوں میں 700ارب کا اضافہ ہوا ہے۔ سونا ایک لاکھ روپے فی تولہ کی حد عبور کرگیا ہے۔ گزشتہ سال بھی روپے کی قدر میں 30فیصد ریکارڈ کمی دیکھی گئی تھی۔ فی الحال تو کرونا سے جنگ جاری ہے۔ ایسے میں معاشی روڈمیپ کی کسی کو فرصت کہاں؟ بلدیاتی نظام اور بلدیاتی مقامی حکومتیں نام کو ہیں، ان کی کارکردگی پیدائش و اموات کی پرچیوں اور طلاقوں کی تصدیق کے سوا کچھ نہیں۔ کرونا تو دور کی بات بلدیاتی اداروں کو ہمیشہ فنڈز اور اختیارات کی کمی کا شکوہ رہا۔ کراچی کے پٹرولیم افسر بھی یہی رونا روتے رہے، کاش وزیراعلیٰ لاک ڈائون کے ایام میں لاہور کو کلین لاہور ہی بنا دیتے۔ کوڑے کچروں سے گلیاں، محلے، سڑکیں پاک کر دیتے۔ جا بجا گڑھے پر کروا دیتے۔ کرونا سے نمٹنے کیلئے مزید قرض لینا ہوں گے۔ ہر قرض کے ساتھ سود کا ماسک پہننا پڑتا ہے۔ کب تک کوئی ایک دوسرے کو ہاتھ نہیں لگائے گا، گلے نہیں ملے گا، قریب نہیں بیٹھے گا۔ اولاد تو پہلے سے ماں باپ کے قریب نہیں پھٹکتی، رشتے داروں کیلئے بھی لاک ڈائون رہتا ہے۔ میل ملاپ ، نماز جنازہ اور بارات تک محدود ہے۔ لوگ نوٹ دھونا اور استری کرنا شروع ہوگئے ہیں اور استری بجلی مانگتی ہے۔ قربتیں فاصلوں میں بدل گئی ہیں۔ رہی سہی محبتیں کرونا نے چھین لیں۔ عمران خان کی ٹائیگر فورس کو ذخیرہ اندوز اور منافع خور عناصر پر جھپٹنا چاہئے جو دوسروں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی عادت بد میں مبتلا ہیں۔ مودی نے نہتے اور مظلوم کشمیریوں کا لاک ڈائون کیا، قدرت نے دنیا بند کر دی۔ اب بھی کشمیریوں سے اجتماعی معافی مانگ لو۔

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

ای پیپر دی نیشن