کرونا وائرس اور چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مسلح افواج پہلے دن سے ہی حکومت کے شانہ بشانہ ہیں۔ ہمارا طبی اور معاون طبی عملہ ‘ نتائج کی پرواہ کئے بغیر مریضوں کے ساتھ قریبی رابطہ رکھتے ہوئے پیشہ ورانہ وقار کے ساتھ اس وباء کے خلاف پہلے دن سے ہی کمر بستہ ہو چکا ہے۔ ما شاء اللہ۔ گلگت بلتستان کے ڈاکٹر اسامہ کی مثال دوسروں کے لئے قابل تقلید ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے سبقت حاصل کرتے ہوئے اس وبا سے نمٹنے کے لئے اپنے چالیس ہزار کے لگ بھگ کارکنوں کو حکومت کی مدد کے لئے تیار کر لیا ہے۔ آپ کو یہ جان کر ہرگز حیرانی نہیں ہوگی کہ جماعت الدعوۃ کے کارکن بھی عوام کی مدد کی غرض سے پورے ملک میں متعین کر دیے گئے ہیں‘ جیسا کہ ۲۰۰۵ء میں آزاد کشمیر اور خیبر پختون خواہ میں آنے والے زلزلے کے متاثرین کی مدد کے لئے کئے گئے تھے ۔ہائر ایجوکیشن کمیشن اپنے ادارے کے لئے ایک مربوط پالیسی جاری کی ہے کہ اس وباء سے نمٹنے کے لئے کیا کیا منصوبے اور عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے۔اسی طرح دیگر حکومتی اداروں نے بھی اپنے طور پر پالیسیاں مرتب کی ہیں تاکہ عوام کو اس موذی مرض کے اثرات سے محفوظ کیا جا سکے۔میری یونیورسٹی،نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کے دو نوجوان محققین ڈاکٹر انیلہ جاوید اور علی زوہیب نے کرونا وائرس کی ٹیسٹنگ کٹ تیار کی ہے جس کی باقاعدہ طور پر تیاری کی حکومت پاکستان کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے منظوری دے دی ہے۔یہ کٹ صرف دو ہزار روپے میں دستیاب ہو گی۔ عمران خان خوش قسمت ہیں کہ ہماری قومی اداروں اور ہنر مند افراد نے ان کا کام آسان بنا دیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے ہنرمند افراد کی کوششوں کو قومی سطح پر سراہا جائے اورجواس مقصد کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کریں‘ قومی خدمات کے صلے میں انہیں قومی اعزازات سے نوازا جائے۔اس حوالے سے ڈاکٹر اسامہ کی مثال ہمارے سامنے ہے ؛ اللہ تعالی ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین۔ ہمارے ادارے اور افراد اس سے نمٹنے کے لئے مکمل طور پر تیار کھڑے ہیں اور دنیا بھر کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ’’عظیم پاکستانی قوم کوکبھی شکست نہیں دی جا سکتی۔‘‘ عظیم پاکستانی قوم کو کبھی شکست نہیں دی جاسکتی کیونکہ یہ قوم اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرتی رہتی ہے اوراس کے پیغمبرؐ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے‘ اس کی رحمت اورکرم کی متلاشی رہتی ہے۔ اس قوم نے ہر قسم کے چیلنجز کے دوران صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس موذی وبا ء سے نجات حاصل کرنے کے لئے مربوط طریقے سے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھانا لازم ہیں :
٭مضبوط انسدادی اور حفاظتی تدابیر
٭بہترین علاج معالجہ
٭اللہ تعالی سے رحم کی دعائیں
متاثرہ افراد کوبہترین علاج کی فراہمی کے لئے حکومت کو فوج سے مدد لینی چاہیے جو ہنگامی ہسپتالوں کے قیام کے ذریعے ممکن ہے۔ ایسے ہنگامی ہسپتال فوج کی نگرانی میں ہر شہر اورقصبے کے نزدیک کھلی جگہوں پر قائم کئے جانے چاہیئں۔ مثال کے طور پر اسلام آباد اور راولپنڈی جیسے جڑوا شہروں کے لئے ۲۵۰ بستروں والے دو ہسپتال کافی ہوں گے۔ مریضوں کے لئے اچھی غذا کی فراہمی لازمی ہے جو قریبی شادی ہالوں کی انتظامیہ کی وساطت سے ممکن بنائی جا سکتی ہے۔فوج سے پولیس کی ڈیوٹی نہیں لی جانی چاہیئے بلکہ انہیں ہنگامی ہسپتالوں میں بہتری طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کی ذمہ داری دی جانی چاہیئے۔اس وباء سے متاثرہ مریضوں کا علاج ایک اہم معاملہ ہے اور اس طریقے سے شہروں اور قصبوں میں واقع ہسپتالوں اور دیگر طبی مراکز کو فضائی آلودگی سے محفوظ بنایا جا سکے گا ۔ دعانام سے اس آگہی کا کہ ’’موت و حیات کا اختیار اللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘نماز‘ جو ہم پر فرض ہے اور ہم دن میں پانچ وقت پڑھتے ہیں‘ بہترین دعا ہے۔ اللہ بہت رحیم ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ:
٭بھلا وہ کون ہے جو بے قرار کی التجا سنتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کرتا ہے۔ (سورۃ النمل آیتہ ۶۲)
٭اللہ ہی بہتر نگہبان ہے اور سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ (سورۃ یوسف آیتہ ۶۴)
٭اللہ دعا تجویز فرماتا ہے: اللھم برحمتک یا ارحم الراحمین
٭ہمیں دعا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے جیسا کہ اللہ ہدایت کرتا ہے ان دو فرشتوں کو ’’جو اس کے آگے اور پیچھے اس کے محافظ ہیںاور اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ رعد آیتہ ۱۱)
خلاصہ یہ ہے اللہ تعالی پر ایمان اور یقین کامل‘ہمیں چیلنجوں سے نمٹنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
٭…٭…٭