صوبہ سرحد سے اورنگ زیب خان ، بلوچستان سے قاضی عیسیٰ ، سندھ سے عبداللہ ہارون، بنگال سے خواجہ ناظم الدین اور پنجاب سے شاہ نواز ممدوٹ اور بیگم مولانا محمد علی جوہر کے علاوہ دیگر زعما نے بڑے جوش و خروش سے قرار داد کے حق میں تقریر کرتے ہوئے دلائل پیش کئے۔ مولانا ظفر علی خان نے فی البدیع اردو ترجمہ کیا ۔اجلاس میں نواب بہادر یار جنگ کی تقریر نے ایک سماں باندھ دیا جس پر قائداعظم بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکے ۔قائداعظم کا خطبہ صدارت بھی برصغیر کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ یہ قرار داد اب مسلمانوں کا نصب العین تھی مگر دوسری جانب مسلمانان ہند کے زعما کا ایک بڑا گروہ ایسا تھا جونہ صرف کانگریس اور انگریز کی خوشنودی کے لئے آزاد مسلم ریاست سے منحرف تھا بلکہ دو قومی نظریے کو مسترد کرتے ہوئے ہندوستان میں تمام ہندوستانی ایک قوم کا نعرہ لگانے پر بضد تھے ۔23مارچ 1940سے لیکر 14اگست 1947تک بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے عظیم رفقاء مسلمانان برصغیر کو یہ باور کرانے کی ہر ممکن کوشش میں جتے رہے کہ ہندو ریاست میں مسلمان تیسرے درجے کے شہری مانے جائیں گے اور ان کی نسلیں ہندوستان سے وفاداری کا ثبوت دیتے دیتے زندگیاں ہا ر جائیں گی مگر برہمن راج کسی صورت ان پر اعتماد و اعتبار نہیں کریگا۔ آج کا منظر نامہ بابائے قوم کی بصیرت و بصارت کا ثبوت پیش کر رہا ہے ۔ ہندوستان میں رہنے والے مسلمان آج محمد علی جناح کے تدبر اور اصولی موقف کے قائل ہونے پر مجبور ہیں۔ 23مارچ 1940کو قائداعظم کے حکم پر پندرہ روزہ نوائے وقت کا اجراء ہوا ۔کچھ عرصہ بعد اسے ہفت روزہ بنا دیاگیا ْ۔ جولائی 1944ء سے روزنامہ کی حیثیت سے شائع ہونے لگا ۔پہلے پرچے میں حمید نظامی مرحوم نے کچھ اپنے متعلق عنوان سے اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے لکھا ۔" ہم آپ کو یہ یقین ضرور دلانا چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے سامنے صرف اچھی خبریں پیش کریں گے ۔ہمارے دو سب سے بڑے مقاصد اردو زبان کی ترقی اور علامہ اقبال کے پیغام کی اشاعت ہیں ۔ان کی اہمیت محتاج بیان نہیں ۔ہم اس اخبار کی مدد سے کسی ادبی اور معاشرتی انقلاب کو برپا کرنے کے مدعی نہیں لیکن ہمیں یہ دعوی ضرور ہے کہ ہم آپ کے سامنے اچھا ادب پیش کریں گے ۔ ہم نے یہ قدم راستے کی مشکلات پر پوری طرح غور کرنے بعد اٹھایا ہے ۔نوجوان ہونے کے باوجود ہم جوش فضول کے قائل نہیں ہمارے ارادے بلند ضرور ہیں لیکن یہ بھی نہیں کہ پایہ تکمیل تک پہنچانا انسان کی ہمت سے باہر ہو ۔آخری گذارش یہ ہے کہ ہمارے کام کا اندازہ لگاتے وقت اتنا خیال رکھیے کہ یہ نوجوانوں کا کام ہے "
قارئین کرام! حضرت قائداعظم کے حکم پر جاری کر دہ جریدہ نوائے وقت نے نہ صرف تحریک پاکستان میں مسلمانوں کی ترجمانی اور پاسبانی کا حق ادا کیا ۔قیام پاکستان کے بعد بھی جس قدر نظریہ پاکستان اور مشاہیر پاکستان کے بارے میں نوائے وقت نے خدمات سرانجام دیں ملک کا کوئی اشاعتی ادارہ اس کی برابری کا دعویدار نہیں ہو سکتا اور اس کے ایڈیٹر ثانی و معمار جناب مجید نظامی مرحوم نے ملکی بقا اور استحکام کے لئے جو اہم ترین کردار اد ا کیا وہ بھی آنے والی نسلوں کے لئے قابل تقلید اور باعث فخر ہے ۔نوائے وقت کی اسی سالہ اشاعتی تقریب کے موقع پر حضرت علامہ اقبال کے پوتے محترم ولید اقبال نوائے وقت کی قومی زندگی میں اہمیت اور کارکردی پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نوائے وقت واحد اخبار ہے جو نظریہ پاکستان کا تحفظ کر رہا ہے اور نظریہ پاکستان کا گارڈین ثابت ہوا ہے ۔نوائے وقت کے ہوتے ہوئے کوئی پاکستانی بانیان پاکستان کو فراموش نہیں کر سکتا ۔حمید نظامی نے جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کا جو مشن شروع کیا تھا مجید نظامی نے اس کی خوب آبیاری کی اور رمیزہ مجید نظامی اب اس مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں ۔اسی موقع پر آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنما میر وعظ عمر فاروق نے اپنے تہنیتی پیغام میں کہا کہ نوائے وقت نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو اپنا مشن بنائے رکھا ۔ میری نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی مرحوم سے کئی ملاقاتیں ہوئیں ۔ انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے جہاد کیا ۔میری دعا ہے کہ نوائے وقت کشمیریوں کے حق کے لئے اپنا مشن اسی جذبے کے ساتھ جاری رکھے ۔ آل پارٹی حریت کانفرنس کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی نے بھی تہنیتی پیغام ارسال کیا کہ نوائے وقت نے نہ صرف تحریک پاکستان کے لئے اہم کردار ادا کیا بلکہ قیام پاکستان کے بعد نوائے وقت نے تحریک آزادی کشمیر اور کشمیریوں کے حق خود اختیاری کے لئے قلم کے ذریعے جہاد کیا ۔میری دعا ہے کہ نوائے وقت اپنی درخشاں روایات کو جاری رکھے ۔
…ختم شد…
قرار داد لاہوراور نوائے وقت کے 80سال
Mar 30, 2020