سالِ گزشتہ کو مسلمانانِ کشمیر محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ خون آشام حالات ان کے در پے تھے۔ قتل و غارت گری تھی قیدوبند کی صعوبتیں تھیں, آہ و زاری تھی۔ گھروں میں مقید ہونا ان کا مقدر ٹھہرا تھا۔ مساجد کو مقفل کر دیا گیا تھا۔ عیدین اور دیگر اجتماعات پہ قدغن تھا۔ خورونوش، طبی سہولیات اور روز مرہ کی دیگر ضروریات سے وہ یکسر محروم تھے، جو ہنوز اب بھی ہیں۔ سسکتے بلکتے ان کشمیریوں کی آہ نے اب کہ پوری دنیا کو آ لیا ہے۔ چہار دانگ عالم آہ و بقا ہے۔ فریاد ہے۔ عشرت کدے غیر آباد ہو گئے۔ ہجوم
چھٹ گئے۔ خلوت نشینی لوٹ آئی۔ طرح طرح کی سائنسی ایجادات اور مادی ترقی نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ حالیہ وبائی مرض نے ترقی کا بھرم راکھ کر دیا، انسان کا پردہ فاش کر دیا۔ ستاروں پہ کمند ڈالتا ، زمین پہ اکڑتا زمیں زاد بے بس و لاچار ہے۔ نام نہاد ترقی کے زینے طے کرنے کے دوران میں اسے موت کے خوف نے آ گھیرا ہے۔ خوف در خوف ہے۔ زندگی کی رعنائیوں میںگم سم انسان سانس اکھڑ جانے کے خدشے میں مبتلا ہے۔ گوناگوں خدشات کے بھنور نے اسے آ لیا ہے۔ دنیا چھوڑ جانے کا غم بھی بڑا غم ہے۔ یہ غم غلط کرنے کی خاطر صوفیہ تارک الدنیا ہوتے رہے۔ سچ یہ ہے کہ جو دنیا کو ایک ہی پل میں جھٹک دیتے ہیں، ان کے لئے دنیا ترک کرنا، اس بازارِ دلکش سے پنڈ چھڑانا سہل ہو جاتا ہے۔ بصورتِ دیگر انسان دنیا کی رنگینیوں میں دھنستا ہے اور دھنستا چلا جاتا ہے۔
بلاشبہ صحت ایسی نعمتِ خداوندی کا نعم البدل نہیں، لیکن حقیقت میں انسان نے اس نعمت کا بہت ناروا استعمال کیا۔ اسے باپ کی کمائی کی طرح لُٹایا اور اللے تللوں میںصرف کیا۔ جسم کو لذات سے بہرہ مند کیا۔ عیش و نشاط کی عجب داستان ہے کہ حضرتِ انساں رنگینی میں ڈوب جائے تو اپنی راہ بھول بیٹھتا ہے، واپسی کے راستے معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وہ بہت پَرے نکل جاتا ہے۔ منزل حتیٰ کہ نشانِ منزل کو بھی بُھلا دیتا ہے۔ حقیقتاََ حالیہ وبائی مرض نے انسان کو انسان کی حیثیت
جتلائی ہے۔ اس احساس کے ساتھ کہ وہ خود کا ادراک کر لے، اپنی منزل کا ازسرنو تعین کر لے۔ گزشتہ و آئندہ کا جائزہ لے۔ وہ اخلاقی پستی کے باب میں اس قدر نہ گرے کہ خدا کا قہر ٹوٹے مگر اس انتباہ کے ساتھ یہ بھی یاد رہے کہ خدائے علی الاطلاق کی صفتِ رحمت اس کی صفتِ غضب پہ گراں ہے۔ یہی وہ ساعتیں ہیں کہ اپنے کیے پر شرمندگی کے ساتھ اس کو طرف رجوع کیا جائے۔ معافی طلب کی جائے۔ سجدہ ریز ہوا جائے اور ان اطبا کی تجویز کردہ ہدایات پہ عمل کیا جائے جو موت کو سینے پہ سجائے، خلق کی خدمت میں جُتے ہوئے ہیں۔ موت کو مسلسل پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ جان کی بازی لگا رہے ہیں۔ نیز ان اہلکاروں کے لئے بھی مناجات جو امن کی بحالی پر مامور ہیں اور اپنے اہل و عیال کی پروا کئے بغیر شاہرائوں، چوراہوں اور سرحدوں پہ برسرپیکار ہیں۔ دورِ آزمائش میںمر جانے کے خوف کی آندھی چل رہی ہے۔ نفسا نفسی ہے۔ افراتفری ہے۔ انسان معانقے اور مصافحے سے رہا۔ فاصلہ بڑھ گیا۔ دل کو دل سے راہ پہلے ہی مفقود تھی، اب کہ تپاک سے ملنا بھی گیا۔ بشیر بدر نے بہت پہلے کسی آن کہہ دیا تھا:
؎کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
اس دورِ فتن میں، کروناایسی بھیانک وباکے دوران میں جسم کو جسم سے نفرت ہونے لگی۔ گلے ملنا موت کو گلے لگانے کے مترادف ٹھہرا ہے۔ گہرے رشتوں کو خوف اور نفرت کی دیمک چاٹ گئی۔ ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ فاصلہ اپنے تئیں بجا،مگر کاش نفرت کی جگہ محبت در آئے اور رشتے امر ہو جائیں۔ یہ المناک صورتِ حالات اس امر کی
متقاضی ہے کہ انتظامی امور بہ احسن سر انجام دئیے جائیں۔ ماسک ناپید نہ ہوں۔ اشیائے خورونوش کے نرخ آسماں کو نہ چھوئیں۔ ذخیرہ اندوزوں پہ کڑی نظر رکھی جائے اور ہسپتالوں کے امور میں کوئی کوتاہی نہ برتی جائے۔ حالیہ جرثومے سے متاثرین کو سہولیات فراہمی کے ساتھ ساتھ دیگر امراض میں مبتلا اشخاص کو ہسپتالوں کے صدر دروازے سے ہی نہ دھتکارا جائے بلکہ انھیں معمول کی ادویات اور معالجین دستیاب ہوں۔ یہ عجب موت ہے کہ کفن کی چندا ضرورت نہیں، اعزا چھونے سے رہے، اور محبین تکنے سے رہے۔ یہ خوف مخلوق کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے اللہ والوں کا دامن تھاما، وہ اس خوف سے نبردآزما ہوگئے، کیونکہ ان کے ہاں مرنے سے پہلے مر جانے کا سبق
ہے کیونکہ اگر زندگی میں ہی موت کو دیکھ لیا جائے، دنیا کی چاہ کو خیرباد کہہ دیا جائے، تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کر لیا جائے ،خود کو کسی خیرخواہ کے حوالے کر دیا جائے یعنی سرنڈر کر دیا جائے تو ساری منزلیں چند ساعتوں میں طے ہو جاتی ہیں اور موت کا خوف اشتیاقِ وصل میں بدل جاتا ہے۔حالیہ وبائی مرض نے بہت سے حقائق ہم پر آشکار کئے ہیں۔ اولاََ یہ کہ مادی نہیں بلکہ روحانی ترقی ہی معیارِ حق ہے، بالآخر نجات اسی میں ہے۔ اصل ترقی مادیت میں نہیں، روحانیت میں مضمر ہے۔ چاند پہ قدم دھرنے والے ایک جرثومے کی شکست کا ساماں نہ کر سکے۔ ثانیاََ انسان کی اپنے تئیں کوئی حیثیت نہیں۔ ایک ان دیکھاجرثومہ زندگی کی ستر، اسی سالہ عمارت کو پل بھر میں زمیں بوس کر سکتا ہے۔ اس لئے حربی و جنگی آلات کے بجائے فلاحِ انساں کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ ایٹمی توانائی کا رخ زندگی کی بقا کی طرف موڑا جائے۔ ثالثاََ طیب اور حرام کی تخصیص کو خاطر میں لایا جائے۔ فطرت کی طرف لوٹا جائے اور تمام تر غیر فطری امور سے بے تعلقی کی جائے۔ اربعاََ محض مسلمان نہیں بلکہ دنیا کے کسی گوشے میں انسان مظالم کاشکار ہیں تو ان کی نجات کے اسباب کئے جائیں۔ ترجیحاََ فلسطین و کشمیر کے مظلومین کی دادرسی کی جائے۔
اس دورِ ابتلا میں گھروں کی چھتوںپہ ازانیں دی جا رہی ہیں۔ آنسو بہائے جا رہے ہیں، بین کئے جا رہے ہیں۔ وہی مالکِ حقیقی ہے جو مصیبت کی اس آن، تمام عالم کو اس خوف اور آزمائش سے نجات عطا کر سکتا ہے۔ اس دردناک صورتِ حالات کے پیش نظر، دردِ انسانیت کے حامل، عہد رواں کے جید محقق استاد الاستاد، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کے درد آمیز مصرعے گویا بذاتِ خود اشک بار ہیں:
؎ہر طرف آنسو ہیں، نالے ہیں، بُکا ہے، بَین ہے
اے خدائے مہرباں! دنیا بہت بے چین ہے