لاہور (حافظ محمد عمران/ سپیشل رپورٹر) معروف ڈرامہ نگار اور کئی یادگار ڈراموں کے رائٹر اصغر ندیم سید کہتے ہیں کہ آج ڈرامہ بنانے والے کہتے ہیں کہ جیسا چاہیں گے عورتوں کو دکھائیں گے اور پیسہ کمائیں گے۔ ڈرامہ بنانے والوں کا سب سے بڑا مقصد پیسہ کمانا ہے۔ معاشرے پر ان ڈراموں کا کیا اچھا یا برا اثر پڑتا ہے اس اچھائی یا برائی سے ان لوگوں کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ وہ اپنی دھن میں ڈرامے بنائے چلے جا رہے ہیں۔ پرائیڈ آف پرفارمنس حاصل کرنے والے ڈرامہ نگار نے ان خیالات کا اظہار نوائے وقت کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مرحومہ حسینہ معین آج کے غیر معیاری و غیر اصلاحی ڈراموں پر بولتے بولتے دنیا سے چلی گئیں، کسی کو کچھ فرق نہیں پڑا۔ کوئی سننا ہی نہیں چاہتا نہ کوئی اس طرف توجہ دینا چاہتا ہے۔ آج لوگوں نے پیسوںکی خاطر معیار پر سمجھوتہ کر لیا ہے اور ڈراموں کو پیسہ بنانے کی مشینیں بنا کر رکھ دیا ہے۔ کون دیکھ رہا ہے، میں تو نہیں دیکھتا کہ ٹیلی ویژن کیا دکھا رہا ہے۔ عورتوں کو کس انداز میں دکھایا جا رہا ہے۔ جس طرح عورتوں کو دکھایا جا رہا ہے کوئی سوچتا ہے کہ ایسے کرداروں کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ کسی کے پاس وقت ہی نہیں کہ کوئی سوچے کہ جن کرداروں میں عورت کو مسلسل دکھایا جا رہا ہے ایسے کرداروں کا معاشرے پر کیا اثر پڑے گا۔ یہ تکلیف دہ بات ہے۔ کتنی مرتبہ اس حوالے سے بات کی ہے۔ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے لیکن لوگ سننا ہی نہیں چاہتے۔ ممکن ہے جن لوگوں کے لیے ڈرامہ بنایا جا رہا ہے وہ دیکھتے ہوں میں تو نہیں دیکھتا۔ اصلاح کا کوئی پہلو، کہیں سے بھی، کسی بھی جگہ سے نکلتا ہے تو بتائیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ہم ایک طرف ہیں۔ ہمارے ڈرامے کی مقبولیت کی وجہ معیار تھا۔ ہر کردار پر کام ہوتا تھا اور ڈرامے کے ذریعے ناظرین کو خاص پیغام دیا جاتا تھا۔ کوئی کہانی ہوتی تھی۔ کوئی سر پیر ہوتا تھا۔ آج کیا ہے، گھسے پٹے موضوعات، کردار کشی، غیر اخلاقی چیزوں کو بار بار دکھایا جا رہا ہے۔ بس دکھاتے جائیں‘ جس کا جو دل کر رہا ہے وہ بناتا جا رہا ہے اور نشر کرتا جا رہا ہے۔ دکھ ہوتا ہے کہ ہمارا ٹیلی ویژن کیا تھا اور اب کیا ہو گیا ہے۔ لوگوں کا مقصد بدل گیا ہے اور جب مقصد بدلتا ہے تو زوال ہی آتا ہے۔