فارسی زبان کا محاورہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ دانتوں کا کوئی تیر بہدف علاج نہیں ہے۔ واحد علاج ان کو نکلوانا ہے۔ ویسے تو کارخانہ قدرت میں کوئی پیشہ بھی بیکار نہیں ہے ہر چیز کی اپنی اہمیت اور افادیت ہے لیکن دانتوں کی اہمیت بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کیونکہ ان کا تعلق آزمائش کام ودہن سے ہے۔ بعض لوگ زندہ رہنے کیلئے کھاتے ہیں اور کچھ کھانے کیلئے زندگی گزارتے ہیں لیکن کھاتے سب نہیں! خوش خوراکی کا مزہ تب ہی آتا ہے اگر دانت مضبوط اور سلامت ہوں۔ عرب دنیا میں جو حسن کا معیار مقرر کیا گیاہے اس میں بھی دانتوں کا بالخصوص ذکر ہے (Teeth Like Pearls Set In a oral)وہ مسکراہٹ جو دل کو موہ لیتی ہے اس کا تعلق بھی دانتوں سے ہے۔ ان کی مرہون منت ہوتی ہے۔
بات چیت میں سب سے بڑی نمائش دانتوں کی ہوتی ہے۔اہل مغرب دانتوں کی صفائی اور حفاظت پر بہت توجہ دیتے ہیں۔ خوبصورتی کے علاوہ بھی حفظان صحت کیلئے یہ ضرورت ہے دانتوں کی بیماری کی عوارض بھی حفظان صحت کیلئے یہ ضروری ہے۔ دانتوں کی بیماری کئی عوارض کو جنم دے سکتی ہے کیونکہ خوراک معدے تک ان کے ذریعے ہی پہنچتی ہے۔ ڈینٹسٹ ایک عام ڈاکٹر کی نسبت کئی گنا زیادہ کماتے ہیں۔ انشورنس کمپنیاں بھی ان کی انشورنس کرتے ہوئے ہچکچاتی ہیں۔ بالفرض کوئی شخص مصر ہو تو اس کو زیادہ رقم دینا پڑتی ہے۔ 1984ء میں میں اولمپکس کھیلیں دیکھنے لاس اینجلس گیا اور کوئٹہ کے بزنس مین اشفاق دتو صاحب کے ہاں ٹھہرا۔ وہ گارمنٹس کا کاروبار کرتے تھے اور خاصے خوشحال تھے۔ میں چونکہ 1968-70ء میں AC قلات رہا تھا اس لئے کوئٹہ کے ہر قابل ذکر تاجر کو جانتا تھا۔ دتو صاحب کی بیوی امریکن تھی۔ بتانے لگے اسکے دانت میں درد تھا ڈاکٹر کے پاس گئی تو اس نے ’’روٹ کنال‘‘ کا مشورہ دیا۔ یہ ایک طویل عمل ہے جس سے دانت کی جڑوں تک پہنچ کر ان کو منجمد کردیا جاتا ہے اس طرح دانت کا دردجاتا رہتا ہے اور اسے نکالنا بھی نہیں پڑتا ۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ پانچ ہزار ڈاکٹر (آج کے آٹھ لاکھ روپے) خرچ کرچکی تھی لیکن علاج ختم نہیں ہوا تھا۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں بچوں کو دانت صاف کرنے کا طریقہ تک نہیں بتایا جاتا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اکثر والدین خود بھی نہیں جانتے۔ ہم خود ایک طویل عرصہ تک برش کو دانتوں پر الٹا پھیرتے رہے جس سے مسوڑوں کی دانتوں پر گرفت کمزور ہوتی گئی۔ ظاہر ہے جب (GUMS)ساتھ چھوڑ دیں تو دانت بید مجنوں کی شاخ کی طرح لرزنے لگتے ہیں۔
جس شخص نے فارسی زبان کا محاورہ وضع کیا اس کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا ہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب اخراج دنداں کے بعد بھی علاج دنداں ممکن ہوجائیگا۔ پہلے پہل تو ڈینچر کا طریقہ استعمال کیا گیا یعنی پوری بتیسی مصنوعی دانتوں کی جڑوں پر فٹ کردی جاتی۔ اس سے خوراک چبانے میں سہولت رہتی اور منہ بھی چوسے ہوئے آم جیسا نہیں لگتا ۔ ڈینچر لگوانے کی لاگت بھی قابل برداشت ہوتی۔ اس میں قباحت صرف یہ تھی ، رات کے وقت اسے اتارنا پڑتا دن میں دوبارہ ٹوتھ پیسٹ اور صابن سے صاف کرنا پڑتا۔ لذت کام و دہن بھی ایسی نہ ہوتی جیسے اصل دانتوں کی ہوتی ہے۔
جیسے جیسے سائنس اور ٹیکنالوجی ترقی کرتی گئیں ویسے ہی ڈینٹل سائنس میں بھی انوکھے اور حیران کن طریقے اپنائے گئے۔ دانت کی جگہ نیا دانت، مصنوعی لیکن اصل سے بھی زیادہ مضبوط، پائیدار اور خوبصورت سفید اس قدر کہ پہاڑوں کی برف پر بھی حرف آئے۔ لائف لانگ گارنٹی… پہلے لوگوں کو امپلانٹ کیلئے مغربی ممالک بالخصوص سوئٹزرلینڈ جانا پڑتا تھا۔ اب وہ ٹیکنالوجی پاکستان میں بھی آگئی ہے جو لوگ ٹوتھ امپلانٹ کرتے ہیں انہیں کہا جاتا ہے کراچی، لاہور، پنڈی اور چند دیگر شہروں میں یہ سہولت میسر ہے اور کافی پیراڈونٹسٹ کامیاب پریکٹس کررہے ہیںلیکن وہ جو کہتے ہیں کہ ’’مشک آں است کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگویدا ایک اچھی خوشبو عطار کے لب سینچ دینی ہے اور اپنا پتہ آپ دیتی ہے۔ جب بھی پاکستان میں ڈینٹسٹری کی تاریخ لکھی جائیگی تو ایک نام جو پردہ ذہن پر ابھرے گا وہ ڈاکٹر امین الرحمن کا ہوگا۔ کہتے ہیں آمد آفتاب دلیل آفتاب ہوتی ہے۔ عمومی رائے یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب فی الوقت پاکستان کے بہتر ین ڈاکٹر ہیں۔ انکے کلینک رحمن اینڈ رحمن نے سوئٹزرلینڈ کی فرم STRAUMANNسے الحاق کررکھا ہے۔ نصف گھنٹے سے بھی کم عرصے میں یہ بغیر تکلیف کے ٹوتھ امپلانٹ کردیتے ہیں۔ اسکے بعد HEALING PROCESS شروع ہوجاتا ہے جو چند ہفتوں پر محیط ہوتا ہے۔ جب دانت لگتا ہے تو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ اس جگہ اصل دانت کبھی ٹوٹا بھی تھا۔
ڈاکٹر صاحب سے میری ملاقات حادثاتی تھی۔ میں ایک دن کھانا کھارہا تھا تو مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میری بائیں داڑھ نوالے میں شامل ہوگئی ہے۔ میں فوراً ڈینٹل ہسپتال پہنچا۔ ڈاکٹر فریدہ درانی نہایت قابل اور تجربہ کار ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے معائنہ کے بعد بتایا کہ ڈینچر تو بن سکتاہے لیکن ٹوتھ امپلانٹ کیلئے (PERIODONTSUST) کے پاس جانا پڑے گا۔ جب استفسار کیا تو انہوں نے بغیر تامل کے ڈاکٹر امین صاحب کا نام لے لیا۔ طوہاً و کراہاً رحمن کلینک پہنچا تو کچھ یوں محسوس ہوا جیسے کسی یورپین کلینک میں آگیا ہوں۔ نہایت مودب، تجربہ کار عملہ جدید ترین ٹیکنالوجی، ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی تو ان کی باتیں سن کر اور حسن سلوک سے آدھی تکلیف تو ویسے ہی جاتی رہی برلن میں ENT سپیشلسٹ ڈاکٹر این اے خان کے بعد یہ دوسرے ڈاکٹر تھے جنہوں نے مجھے متاثر کیا۔ مصنوعی دانت نے تو خیر لگنا تھا سو لگ گیا لیکن ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھنے لگا۔ڈاکٹر رحمن ہارورڈ سکول آف میڈیسن کے تعلیم یافتہ ہیں۔
پریکٹس کے علاوہ وہاں پڑھاتے بھی رہے۔ تمام دنیا میں دو ہی تعلیمی درسگاہیں ہیں جنہوں نے بڑا نام کمایا ۔ ہاورڈ اور آکسفورڈ ڈینٹل سرجری میں تیس سال کا تجربہ رکھتے ہیں۔ درحقیقت امپلانٹ انہوں نے ہی پاکستان میں شروع کئے۔ آج کل مارکیٹ میں چینی اور کورین امپلانٹس کی بھرمار ہے جو سستے تو ہیں لیکن بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سوئٹزرلینڈ کے STARUMANN گروپ کے امپلانٹس استعمال کرتے ہیں جن کا جواب نہیں۔گو اس کی قیمت قدرے زیادہ ہے لیکن اس کہاوت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا مہنگا روئے ایک بار سستا روئے بار بار! انکے مسلم ٹائون لاہور کے علاوہ کراچی، اسلام آباد اور دبئی میں بھی کلینک ہیں۔