اس دنیا کے میخانے میں مہمان بدلتے دیکھے ہیں ۔ ایک چہرے پہ کئی چہرے سجائے نسل ِ آدم کو وقت کے ساتھ لمحوں میں آنکھیں بدل کر بے وفائی کی معراج پر جاتے دیکھا ہے۔ فانی دنیا کے لالچ میں رشتوں کا خون ہوتے دیکھا ہے ۔ مگر زندگی میں یہی سبق سیکھا ہے کہ جس کی تربیت میں کمی ہوتی ہے وہ ساری عمر لوگوں پر طعنہ زنی اور تہمت میں گزارتے ہیں اور زندگی میں کوشش نہ کرنے والے سازشیں کرتے ہیں اور بجائے مقابلہ کرنے کے برائی کرتے ہیں اور زندگی میں دوڑ کر نہ ہرانے والے توڑ کر ہرانے کی کوششیں کرتے ہیں اوریہ بھول جاتے ہیں کہ اخلاق و کردار کو بلند رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے خون اور خاندان کی پہچان ہوتی ہے اور اگر آپ نے کسی کے کردار کا اندازہ لگانا ہو تو یہ دیکھو کہ وہ ہنستا کس بات پر ہے ۔ بحیثیت سیاسی کارکن میری زندگی کے بہترین سال سابقہ وزیر اعظم کے ساتھ گزرے ہیں ۔ ہر روز ایک نیا تماشہ ہوتے دیکھا ہے ۔ تحریک نجات کے کئی سال سٹیجوں پر سرے محل اور 6سوکروڑ ڈالر کا حساب مانگنے سے ملکی خودمختاری کا سودا کرنے کی سازشیں کرنے اور پھر سابق وزیر اعلیٰ کو پیٹ پھاڑ کر لاڑکانہ ، پشاور اور کراچی کی سڑکوں پر گھسیٹنے کا کہتے ہوئے اور پھر انہی کو میثاقِ جمہوریت کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ میں سابق وزیر اعظم کیساتھ مالدیپ کے دورے پر تھاہم نے 25جولائی کو اسلام آباد سے فلائی کیا اور27جولائی کو واپس اسلام آباد لینڈ کیا 28جولائی کو وزیر اعظم کو عدالت کے ذریعے نااہل قراردے دیا گیا۔ جس دن سابق وزیر اعظم صاحب نے فیصلہ کیا کہ اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور جائیں گے ۔میں نے ایک عالم دین کو درخواست کی کہ آپ انھیں اداروں کیساتھ اُلجھنے سے منع کریں اور انہیں اسلام آباد سے لاہور ریلی کی صورت میں جانے سے اجتناب کرنے کیلئے کہیں ۔ رات تقریباً پونے بارہ بجے ان سے کال کروائی مگر سابق وزیر اعظم نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ یہ ہماری پارٹی کا فیصلہ ہے۔ میرے خیال میں یہی ٹرننگ پوائنٹ تھا اس احتجاج سے لیکر آج تک کچھ لوگ سازشوں میں مصرف ہیں اور اداروں کے خلاف روز نئی پلاننگ سے باز نہیں آرہے۔ اور پاکستان کو اس حال میں پہنچانے کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہیں حالانکہ انھوں نے ایک خاندان کی بربادی کے ساتھ پاکستان کو بھی نقصان پہنچایا ہے انھیں اب باز آنا چاہیے۔ پاکستان کو کنگال کر کے بھی انہیں صبر نہیں آرہا۔ انٹر نیشنل مالیاتی اداروں نے ہمیں جکڑ لیا ہے اور اپنی مرضی سے پاکستانی قوم کا خون چوس رہے ہیں اور ہم بے بس ہیں ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ نئے سال اور ہمارے مذہبی تہوراوں پر بھی ہمیں مہنگائی کا تحفہ ملتا ہے۔ ہم کس طرف جا رہے ہیں ۔ آنکھیں بند کرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے ۔ میری نظر میں پاکستان کی ایٹمی طاقت بالآخر ان کا ٹارگٹ ہے۔حالانکہ یہ سازشوں میںجکڑی ہوئی قوم اور ہمارے معتبر ادارے اللہ کے فضل وکرم سے ایسا کبھی نہیں ہونے دینگے ۔ مگر اس کیلئے ہمیں اپنی صفوں میں چھپے دشمن کے آلہ کار لوگوں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے ۔ ہر صورت ہمیں اپنی خود مختاری اور اپنے خود مختار اداروں کے تحفظ کیلئے جاگتے رہنا چاہیے اور دنیا سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی چاہیے ۔
آئی ایم ایف ہو ورلڈ بینک ہو یا یونائیٹڈ نیشن ہمیں ایک قدم آگے جا کر اپنا حق مانگنا چاہیے۔اور دنیا کی دہشت گردی کی جو جنگ پاکستان نے اپنے سینے پر لڑی ہے اور لاکھوں قربانیاں دی ہیں ان کا حساب ضروری ہے۔ دنیا کی صفوں میں اپنے دوست اور دشمنوں کی ہر صورت پہچان ضروری ہے ۔اب بلیک میلنگ میں مزید کمزور ہونا ہمیں برباد کر دے گا ۔ اپنی خارجہ پالیسی کا از سرِ نو جائزہ لینا ضروری ہے اور ہمارے سفارت خانے جو دنیا میں اپنا رول ادا کر رہے ہیں انہیں زیادہ کام کرنا پڑے گا صرف روزانہ کسی نہ کسی ملک کے National Daysپر جا کر سوائے کھانے کے کچھ نہیں ملے گا۔ ہماری وزارتِ خارجہ کو روزانہ کی بنیاد پر ٹارگٹ فکس کر کے Feedbackلینا پڑے گا۔ اور ہر ایمبیسیڈر کی کارکردگی کو چیک کرنا پڑے گا۔ شاید پاکستان کے حالات اتنے اچھے نہیں ہیں جتنے نظر آتے ہیں اور پاکستانی قوم کی چیخیں نکل رہی ہیں کہ :
جس بستی میں ہم بستے ہیں روٹی مہنگی غم سستے ہیں
کبھی کبھی انسان نہ ٹوٹتا ہے نہ بکھرتا ہے بس تھک سا جاتا ہے ۔کبھی خود سے کبھی قسمت سے کبھی اپنوں سے ۔
اقبال اور قائد اعظم کے پاکستان کے ساتھ بہت کھیل کھیلے گئے ہیں ۔ یہ ایک زندہ قوم ہے مگر اس کے ساتھ دھوکے بھی بہت ہوئے ہیں۔ مگر اب شاید یہ قوم بھی اپنوں کے زخم کھا کھا کر تھک سی گئی ہے ۔
کچھ زیادہ نہیں کہنا چاہتا مگر عادت سے مجبور ہوں ۔مجھے یہ تو کہنے ہی دیں کہ :
جنہیں دیکھنا بھی نہ چاہے نظر
انہی سے تعلق بڑھانا پڑا
کئی سانپ تھے قیمتی اس قدر
انہیں آستیں میں چھپانا پڑا
٭…٭…٭