پرانے گھر کی دھوپ میں ایک عجیب سی گرمی تھی ۔ معلوم نہیں ہم اس وقت کتنے ہوش مند تھے ۔ لیکن پھر بھی دھوپ کنارے کے بیک گرائونڈ میں چلتی نظم ۔۔رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی ۔۔۔ سنتے ہوئے کسی ننھے فلاسفر کی طرح سر ٹیک کر آنکھیں نیم وا کر لیا کرتے تھے۔۔ ڈاکٹر احمر اور مس خان کے بیچ چلتی انا کی جنگ اگرچہ اس وقت سمجھ نہیں آتی تھی ۔۔
لیکن پھر بھی ہمارا ننھا دماغ اور معصوم دل سیریل کے آخر میں ان کے ملاپ کی خواہش کیا کرتا تھا۔۔ امی کی گود میں بیٹھ کر ریپیٹ ٹیلی کاسٹ میں یہ ڈرامہ دیکھتے ہوئے اکثر مس خان کا ہئیر سٹائل کاپی کرنے کو دل کرتا تھا جس پر نانی اماں مسکرا کر کہا کرتی تھیں کہ اب اس کا فیشن نہیں رہا ۔۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر احمر کی یہ بات سمجھ آ گئی کہ دھوپ کے کنارے تاریک ہوتے ہیں ۔۔۔
ڈھلتی شام میں زمین پر حرکت کرتے ڈاکٹر احمر اور ڈاکٹرزویا کے چلتے قدموں کے سائے بچپن کی دیوار کی دوسری جانب آج بھی نظر آتے ہیں ۔۔۔ اس کے پیچھے بجتی دھن کے پیچھے اماں ابا کے گھر کا سکون ہے ۔۔۔ حسینہ معین کا قلم ہمیشہ زندہ رہے گا ۔۔۔۔رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آ ئی ۔۔۔
٭…٭…٭