کرک میں جے یو آئی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے جے یو آئی کے امیر اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ وہ دین کی خاطر سب کچھ کر گذرنے کے لئے تیار ہیںان کی جنگ اللہ کے نظام کے نفاذ کے لئے ہے نہ ہی وہ جیلوں سے ڈرنے والے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے والد محترم مفتی محمودکی دینی خدمات کا ہر کوئی معترف ہے ۔جب وہ بھٹو دور میں صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے وزارت اعلیٰ سنبھالتے ہی جو پہلا حکم جاری کیا تھا وہ شراب پر پابندی کا تھا۔ان کی وفات کے بعد جے یوآئی دو حصوں میں بٹ گئی اور ایک دھڑے کے امیر مولانا فضل الرحمان بن گئے۔جے یو آئی نے کے پی میں بھی حکومت کی اور وفاق میں تو مولانا کی جماعت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے دور میں ان کی اتحادی رہی جس میں مولانا بذات خود اہم عہدوں پر رہے بلکہ ان کی جماعت کے ارکان وفاقی وزیر بھی رہے ۔ان دوران جو انہوں نے دین کے لئے خدمات انجام دی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔گذشتہ انتخابات میں امین اللہ گنڈا پور سے شکست کھانے کے بعد وہ ہواس باختہ ہو چکے ہیں ۔یہ بات تو محترمہ بے نظیر بھٹو بھی کہا کرتی تھیں جب مولانا اقتدار میں نہ ہوں تو ہوش و خواس کھو بیٹھتے ہیں۔اس میں شک نہیں مولانا کی زیر نگرانی بہت سے دینی مدارس ہوں گے جہاں بچوںکو حفظ قرآن کے علاوہ دینی تعلیم دی جاتی ہوگی لیکن میدان سیاست میں رہتے ہوئے انہوں نے ملک میں اسلامی قوانین کے نفاز کے لئے کوئی ایک کام بھی کیا ہو تو عوام کو بتا دیں۔ درحقیقت مدارس کے بچوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ان کے سیاسی مقاصد بھی ہیں تاکہ جب کبھی جلسے جلوس اور دھرنے کی ضرورت ہو تو انہیں استعمال میں لایا جا سکے۔میاں نواز شریف بہت سمجھدار ہیں انہوں نے ویسے ہی مولانا کو پی ڈی ایم کا سربراہ تو نہیں بنایا ہے انہیں معلوم ہے نہ تو پیپلز پارٹی اور نہ ہی ان کی اپنی جماعت موجودہ حالات میں اس پوزیشن میں ہے کہ وہ حکومت کے خلاف احتجاج کے لئے عوام کا جم غفیر جمع کر سکیں۔مولانا کے وفاقی دارلحکومت میںدھرنے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے جس طرح شرکت کی مستقبل قریب میں بھی انہیں اسی طرح کی امید رکھنی چاہیے ۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے درمیان متنازعہ بیانات کی چلنے والی جنگ کو مولانا نے وقتی طور پر تو ختم کرا دیا ہے لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کبھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے دونوں جماعتوں کے نظریات مختلف ہونے کی بنا اور ماضی کی تلخیوں کے باعث دونوں جماعتوں کا آپس میں یک جا ہونے کے بہت کم امکانات ہیں۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کے خلاف نیب مقدمات نہ ہوتے تو دونوں جماعتیں کبھی ایک پلیٹ فارم پر جمع نہ ہوتی۔یہ تو بھلا ہو نیب کا جس نے دونوں جماعتوں کے قائدین کے خلاف مبینہ کرپشن کے مقدمات کی وجہ سے اپوزیشن اتحاد میں شامل کرا دیا وگرنہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان کسی بات پر اتفاق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔لہذا پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم سے استعفوں کے معاملے پر جو وقت مانگا ہے وہ وقت گذاری کے سوا کچھ نہیں۔اس وقت سب سے بڑی مشکل شریف خاندان کی ہے جس میں خاندان کا کوئی فرد ایسا نہیں جس کے خلاف نیب مقدمات یا انکوائری نہ چل رہی ہو۔آصف علی زرداری تو اپنے خلاف مقدمات میں پراعتماد ہیں ۔ماضی میں بھی انہوں نے اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کسی اتحاد کے بغیر کیا اور اب ہی وہ اپنے خلاف مقدمات کا سامنا شور غوغا کئے بغیر کر رہے ہیں۔لہذا شریف خاندان اور آصف علی زرداری کے معاملات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔عشروں تک غریب عوام کو بیوقوف بنانے والے سیاست دان اب کس منہ سے عوام کو لانگ مارچ کے لئے کال دے رہے ہیں ۔پی ڈی ایم کی جماعتوں کو غالبا اس بات کا پورا ادراک ہو چکا ہے کہ عوام اب ان کے جھانسے میں آنے کے لئے تیار نہیں۔پی ڈی ایم کی جماعتیں ایک طرف عوام کو مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ میں شریک ہونے کی دعوت دے رہی ہیں تو دوسری طرف پی ڈی ایم کے سربراہ اپنی جماعت کے ورکروں کو دین کے نفاذ کے لئے نکلنے کی ترغیب دے رہے ہیں جسے پی ڈی ایم کی دوغلی پالیسی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔اسلامی نظام تو جنرل محمد ضیاء الحق نافذ نہیں کر سکے تھے اپنے گیارہ سالہ دور میں ماسوائے قصاص ودیت کے قوانین کے نفاذ کے سوا وہ کچھ نہیں کر پائے تھے تو پی ڈی ایم کے سربراہ کیا کریں گئے ۔لیکن اب وقت آگیا ہے کہ عوام اچھے اور برے سیاست دانوں کی تمیز کریں تاکہ آنے والے انتخابات میں صرف وہی جماعتیںکامیاب ہو سکیں جو عوام سے جھوٹے وعدوں کی بجائے عملی طور پر ان کی خدمت کر سکیں۔مولانا کا لانگ مارچ کے لئے کارکنوں کو زیادہ سے زیادہ افرادی قوت شامل کرنے کی جدوجہدکی اپیل سے صاف ظاہر ہے کہ لوگ اب کسی مارچ کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اسی بنا پی ڈی ایم حکومت کے خلاف لانگ مارچ کو مسلسل مواخر کئے جا رہا ہے ۔اب عید کے بعد لانگ مارچ کی نوید دی جا رہی ہے ۔اگر عوام حکومت کے خلاف کسی تحریک میں شرکت کے خواہاں ہوتے تو پی ڈی ایم کو لانگ مارچ کو باربار مواخر کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔سب سے پہلے تو اپوزیشن جماعتوں کا کسی ایک بات پر متفق ہونا ضروری تھا کہ آیا وہ مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کریں گی یا عوامی لانگ مارچ ہوگا یا بقول مولانا اللہ کے دین کے نفاذ کے لئے مارچ ہوگا ۔آخر عوام سیاسی جماعتوں کی کسی بات پر یقین کریں۔سب سے پہلے تو پی ڈی ایم کی جماعتوں کوعوام پر واضح کرنا چاہیے ان کی تحریک کے اصل مقاصد کیا ہیں؟