مارچ تو ڈبل مارچ کی وجہ سے مشہورہے،مگر کچھ برسوں سے اس ماہ کے آنے سے پہلے ہی اس طرح کے واقعات ہو جاتے ہیں جس کے باعث توجہ بٹ جاتی ہے ، گذشتہ اتوار کا کچھ دنوں سے بہت شور وغوغا تھا ،اس کی وجہ یو ٹیوب پر چلنے والے چینلز ہیں،ایسی دور کی کوڑیاں لا رہے تھے دل لرزاں تھے کہ نہ جانے کیا ہونے والا ہے ،پہلے اس طرح کا ماحول بنایا گیا،اس وجہ ظاہر ہے کہ کسی کے اعصاب کو امتحان لینا مقصود تھا ،کچھ خیالات،کچھ تجاویز ان کے ذریعے پھیلائی گئیں اور کہا گیا کہ کچھ فیصلے ہوگئے ہیں ،کچھ جانے والے ہیں ،کچھ آنے والے ہیں،نوٹیفائی اور اور ڈی نوٹیفائی کی باتیں چلائی گئیں ،سر پرائز کا لفظ بھی سننے کو ملا،اس طرح کی افواہوں کو حکومت کے مقربین کی طرف سے ذو معنی گفتگو کی وجہ سے بھی تقویت ملی ،ایسا ماحول ہو تو سوچ کہیں سے کہیں چلی جاتی ہے ،جب محسوس ہواکہ لینے کے دینے پڑ جائیں گے توبلا،بلا کر وضاحتیں دینا شروع کر دی ، ایک چیز معاشرے میں پھیلائی جا رہی ہو ،الفاظ سے کھیلا جا رہا ہو ،جلسوں میں ان کے نئے معنی بیان کئے جا رہے ہوں تو اس کا مطلب کیا ہے ؟اینکزز اور یو ٹیوبرز لایعنی اور بے تکی گفتگو کر کے اس کو بڑھاوا دے رہے ہوں تو خاموشی اس کی تائید کے مترادف ہوا کرتی ہے ،اتوار آیا سارا کچھ سنااور اپنے آنکھوں سے بھی دیکھا اور مرزا غالب کی طرح مایوس لوٹناپڑاکہ تماشا نہ ہوا،حسب سابق کچھ نیا نہ تھا،ساری گفتگو وہی تھی جو برسہا برس سے سنتے چلے آئے ہیں ، بس خط کا ہلکا سا تڑکا تھا،جب اسے پتر کو پڑھ کر سنایا نہ جا سکے تو اس کا حوالہ دینا مزا بڑھانے سے ذیادہ بد مزگی پیدا کرتا ہے ،8 مارچ کو ایک تحریک عدم اعتماد آتی ہے ،جو ظاہر ہے کہ اپوزیشن کی اس کیلکولیشن پر مبنی ہے کہ سب اچھا نہیں ہے ،ماحول موجود ہے اور آسانی سے کام بن سکتا ہے ،اس کے باوجود اپوزیشن کے راہنما، دن رات ایک کرتے ہیں،اپنا ہوم ورک کو پورا کرتے ہیں اور جب یہ منتخب ایوان کے سامنے موجود ہے توان کو اس کی کامیابی کا اس طرح سے یقین ہے جیسے مشرق سے ہر صبح سورج طلوع ہوتا ہے ،تواس کا توڑ سیاسی پیش قدمی سے ہی ہو سکتا ہے،چال کو جوابی چال سے ہی ناکام بنایا جا سکتا ہے ،لگتا ہے کہ پہلے ٹریژری نے اس کو ایک گیدڑ بھبکی ہی سمجھا تھا ،اسے یقین تھا کہ آپس کے اختلاف کی وجہ سے کسی ایک نکتے پران سب کاجمع ہونا ممکن نہیں ہے ،سیاست کا حسن ہی یہ ہے کہ اس میں راستے بنانے کا گر استعمال کیا جاتا ہے ،حکومت کو بہت پہلے بھانپ لینا چاہئے تھا کہ چیزیں بگڑ رہی ہیں اور امور سے نبٹ لینا چاہئے تھا ،یوں بھی حکومت کے پاس رابطہ بنانے کے تیز ترین زرائع ہوتے ہیں ،جب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے تو اب ان رابطوں کو جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے جن سے ہفتہ دس دن پہلے آسانی سے مستفید ہو اجا سکتا ہے ،، یہ سیاست کا کھیل ہے اس میں اگر ٹائمنگ کا خیال نہ کیا جائے اور جیب آپشنز سے خالی ہو تو ٹیبل بس چائے پینے ہی کے کام آتی ہے ،خطاب بہت سے لوگوں کے لئے اچھا ہوگا ،اس سے کوئی غرض نہیں ہے مگرا س میں صورت حال میں تبدیلی لانے میں مدد دینے کی امید نہیں ہے ،شواہد ہیں کہ 63 اے کے حوالے سے جو تشریحات مانگی گئیں تھیں ،ان سے بھی کام نہیں بننے والا ہے ،لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال میں لگ رہا ہے کہ اپوزیشن نے ٹریژری ووٹ پر انحصار کو ختم کر دیا ہے ، ارکان کوسامنے لانے کا مقصد پہلے ہی پورا ہو گیا ہے ،اب فوکس کچھ اور ہے کہ 63سے بچا جائے ،اس طرح سے ایک سیف گارڈ قائم کیا جا رہا ہے جو اچھی پالیسی ہے ،اس بات کو شواہد یہ ہیں کہ شاہ ذین بگٹی نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ہے ،سندھ سے ایک آزاد رکن قومی اسمبلی نے تحریک کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرادی ہے ،اس طرح فرق محض آٹھ کا رہ جاتا ہے ،اس سے آگے کی کہانی بیان کرنے کے لئے الفاظ کو ضائع نہیں کرنا چاہئے ، بڑی تقریر سننے کے بعد بڑی تیزی سے یو ٹیوبرز کے چینلز کی تلاش کی ،سب کو رائے دینے کا حق ہے ،تبدیلی کے ایک پرانے مداح کو کہتے پایا کہ بہت زبردست خطاب تھا ،ابتداء سے لے کر خط دکھانے تک ہر لفظ جذبات سے پر تھا،سچائی تھی،اور جذبہ تھا،مگر کہنا چاہتا ہوں کہ172پورے کر لو کیونکہ کھیل کے میدان میں دس ،پندرہ ہزار ہوں، ایک لاکھ تماشائی ہوں یا دس لاکھ مگر گیم کا انحصار گیارہ کھیلنے والوں اور سکور بورڈ پر چمکنے والے نتائج پر ہوتا ہے ،جلسے تو دونوں طرف سے ہو رہے ہیں جن میں عوام کی شرکت بھی ہو رہی ہے ،اب یہ بحث فضول ہے کہ کس جلسے میں کتنے لوگ تھے ،22کروڑ کی آبادی ہے جس میں بہت بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے ان کے پاس کام نہیں ،آج کے حکمران ہوں یا آنے والے کل کے ،انھیں بے روز گاری کے اس عفریت کا سامنا کرنا ہو گا ،تاہم اب جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے گوں مگوں سے نکل کر اب ہر کوئی جرات مندانہ فیصلے کرے،آنیاں اور جانیاں ختم کی جائیں کیونکہ ان کی وجہ سے سودے بازی کا تاثر پختہ ہوتا رہا ہے جو کسی طرح سے بھی اچھا نہیں ہے ، ایک طرف کھڑے ہو جائیں تاکہ آنے والے وقت کی تصویر بن سکے اور پبلک میں بے چینی کا خاتمہ ہو اور کھائی سے آگے کی روشنی نظر آئے ،کیونکہ ملک کے مسائل اپنی جگہ پر موجود ہیں اور ان کا حل ہو گا تب ہی سکون آسکے گا ۔