سیاسی ڈور کو الجھنے سے بچایا جائے

حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان اعصاب شکن مقابلے کی فضا بدستور قائم ہے۔ 28 مارچ کو قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف اور اس کی حامی جماعتوں کے ارکان نے ’’شو آف پاور‘‘ کرتے ہوئے 161 ارکان کو پیش کر دیا اور اس طرح اپنی عددی پوزیشن واضح کی اور اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ اپوزیشن پاکستان تحریکِ انصاف کے منحرفین کے بغیر بھی اپنی اکثریت رکھنے کی دعوے دار ہے۔ یعنی متحدہ حزبِ اختلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتوں کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، جمہوری وطن پارٹی وغیرہ بھی کھل کر تحریکِ عدم اعتماد کی حمایت ظاہر کر رہی ہیں۔ دوسری طرف حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں میں جو فاصلہ پیدا ہو چکا تھا اسے پُر کرنے کے لیے کوششیں بھی بھرپور انداز میں جاری ہیں۔ مسلم لیگ ق کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کی پیشکش اسی سلسلے کی ایک کڑی قرار دی جا سکتی ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو سندھ میں گورنر اور وفاقی وزارت شپنگ سمیت دیگر پُرکشش آفرز بھی کی گئی ہیں۔ اس طرح حکومت کی کوشش ہے کہ حزبِ اختلاف اپنی حمایت میں 172 ارکان کی تعداد کسی بھی صورت میں پوری نہ کر پائے۔ کھینچاتانی کے اس ماحول میں دونوں اطراف کے سیاسی رہنمائوں کی طرف سے بیان بازی کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے قائد حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری، چیئرمین بلاول زرداری، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے علاوہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بلوچستان عوامی پارٹی کے قائد خالد مگسی، جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ نوابزادہ شاہ زین بگتی بھی اس بیان بازی میں پیش پیش ہیں۔ قائدِ حزبِ اختلاف اور مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا کہ ہماری حکومت کے خلاف جمہوری جنگ ہے، عمران خان نے اپنی حکومت کے خلاف جس غیر ملکی سازش کا الزام لگایا ہے اگر ان کے پاس اس کا ثبوت ہے یا وہ خط جو انہوں نے جلسہ ’امر بالمعروف‘ میں لہرایا تھا ، وہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے۔ تاہم ملک کے وقار کے خلاف ہونے والی کسی بھی سازش یا مداخلت پر وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ بلوچستان کی اگر کوئی خدمت کر سکتا ہے تو وہ اس وقت اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے ہم لوگ ہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ عمران خان ڈوبتی کشتی ہیں‘ اب کوئی بات انہیں فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی رہنما مریم نواز نے کہا کہ عمران خان اپنا استحقاق کھو چکے ہیں انہیں اب وزیر اعظم ہاوس میں بیٹھنے کا حق نہیں ہے ۔قوم سرپرائز کا انتظار کرتی رہی لیکن کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم
 اعتماد پیش ہو چکی ہے۔ ہم صاف اور شفاف الیکشن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ عمران خان کو سیاست میں مذہب کو نتھی نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اب کوئی کارڈ نہیں صرف عوام کی مرضی چلے گی۔ 
دوسری جانب مسلم لیگ قائد اعظم کے رہنمائوں نے سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کی قیادت میں وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی اس موقع پر سردار عثمان بزدار سے استعفیٰ طلب کر لیا گیا اور چودھری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب نامزد کر لیا گیا۔ اس طرح کم از کم پنجاب میں سیاست ایک نئے موڑ میں داخل ہو گئی ہے۔ حزبِ اختلاف کی طرف سے وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کے خلاف جو تحریکِ عدم اعتماد پیش کی گئی ہے‘ وہ انکے مستعفی ہونے سے غیرمؤثر ہو گئی ہے۔ چنانچہ اس وجہ سے حزبِ اختلاف پھر سے سرجوڑ کر نئی حکمتِ عملی وضع کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ بہرحال عوام کی نظریں اس وقت 31 مارچ پر لگی ہوئی ہیں جب اس گردآلود منظر میں کچھ نہ کچھ صاف و شفاف دکھائی دینے لگے گا۔ گمان غالب ہے کہ دونوںفریق اپنے اپنے اہداف کے حصول کے لیے تھکا دینے والی سیاسی سرگرمیوں کے بعد کسی حتمی نتیجے تک پہنچ سکیں گے۔
 اس وقت تک حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف کے قائدین کو چاہیے کہ وہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں، کسی بھی صورت اور کسی بھی انداز میں کوئی ایسا طرزِ عمل اختیار کرنے سے اجتناب کیا جائے کہ جس کے نتیجے میں جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اترنے کا اندیشہ لاحق ہو۔ حکومت اور حکومت کی مخالف جماعتوں کے عہدیداروں اور کارکنوں میں باہمی مقابلے کی فضا تو ضرور بن گئی ہے لیکن عوام الناس اس تمام صورتِ حال سے نالاں اور پریشاں حال دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ ملک میں جاری بدانتظامی، افراط زر، مہنگائی، بیروزگاری اور امن و امان کا ناگفتہ صورت حال سے عاجز آ چکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت اور حکومت مخالف جماعتوں میں تلخی اس قدر نہ بڑھنے پائے کہ اختلافات جنگ کی صورت اختیار کر لیں۔ غیر یقینی، ابہام اور بے سمتی کی جو صورت حال اس وقت دکھائی دیتی ہے وہ ختم ہو سکے اور وہ عوامی مسائل جو حکومت اور حزبِ اختلاف میں جاری چپقلش کے باعث معرضِ التواء میں پڑے اور ہنوز حل طلب ہیں ان کے حل کے لیے کوئی سبیل نکالی جا سکے۔ وہ سسٹم کہ جس پر عمل کرتے ہوئے اہلِ سیاست منتخب ہو کر ایوانوں میں آئے اس سسٹم کو بہرحال بچانے کی کوشش کی جائے کیونکہ یہ سسٹم ہے تو سیاسی جماعتوں کی سیاست بھی چمکتی رہے گی۔ حکومت اور حکومتی ادارے بھی قائم رہیں گے لیکن اگر خدانخواستہ یہ سسٹم ہی نہ رہا تو ا س کا نقصان صرف عوام ہی کو نہیں ہو گا ان معرکہ آرائی میں مبتلا سیاسی جماعتوں اور اہل سیاست کو بھی ہو گا۔ ماضی میں سیاسی جماعتوں میں ہونے والی لڑائیوں کے نتیجے میں سسٹم کو جو نقصان پہنچا اس کا خمیازہ ان اہلِ سیاست کے ساتھ ساتھ پوری قوم کو بھگتنا پڑا تھا لہٰذا ہماری سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کو ماضی کے واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور مخالفت کو ذاتی دشمنی میں تبدیل کر کے معاملات اس قدر گھمبیر نہ کر دئیے جائیں کہ ان میں بہتری کی صورت ہی پیدا نہ ہو سکے ۔ اب وقت ہے کہ حالات کی نزاکت کو سمجھا جائے ۔ سیاست کی اس ڈور کو الجھنے سے پہلے ہی سلجھا لیا جائے۔تاکہ معاملات ہاتھ سے نکلنے نہ پائیں۔

ای پیپر دی نیشن