آج مفاداتی اقتداری سیاست کا ایسا غلبہ ہوا ہے کہ ہمارے قومی قائدین کے اصولی زریں سیاست کے نعرے شرماتے ہوئے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ پتہ نہیں حمام میں سب ننگے ہوتے ہیں تو انہیں ایک دوسرے کو دیکھ کر شرم آتی ہے یا نہیں‘ مگر اچھے مستقبل کی امید اپنے دلوں میں بسائے ٹامک ٹوئیاں مارتے عوام کا تو موجودہ صورتحال میں ’’کونڈا‘‘ ہی ہو گیا ہے۔
بھئی! جس کا کونڈا ہو رہا ہو وہ اپنے مقدر پر ہنسے یا سر پیٹ کر روئے۔ تماشابینوں میں طوائف کی طرح گھری ہوئی ہمارے ملک کی سیاست فی الواقع مزاحیہ انداز میں ملک اور عوام کا کونڈا کررہی ہے اور اس سیاست کے ساتھ جڑے ہمارے ’’بااصول‘‘ ’’باضمیر‘‘ قومی سیاسی قائدین بازیچۂ اطفال سمجھ کر اس سیاست کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ پیسہ پھینک تماشا دیکھ والا یہ ماحول مزید چند دنوں تک طاری رہے گا۔
پیر کی شام ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے قومی اسمبلی میں وہ تماشا تو نہ لگنے دیا جس کی سپیکر اسدقیصر کے اختیار کردہ طرز عمل کے باعث اپوزیشن اور پوری قوم توقع کررہی تھی۔ وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک آئین کی دفعہ 95 شق ایک اور دو کے تحت آٹھ مارچ کو قومی اسمبلی پیش ہوئی اور اپوزیشن کی حماقت یا کسی خاص حکمت عملی کے تحت آئین کی دفعہ 54‘ ذیلی دفعہ 3 کے تحت عدم اعتماد کی تحریک کے ساتھ ہی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی دے دی گئی چنانچہ عدم اعتماد کی تحریک کو لٹکانے کیلئے سپیکر اسدقیصر اپنے پائوں پر کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے ریکوزیشن پر 14 روز کے اندر اندر اسمبلی کا اجلاس بلانے کا آئینی تقاضا بھی ’’غتربود‘‘ کر دیا اور کھینچتے کھانچتے اجلاس 25 مارچ تک لے گئے جبکہ 25 مارچ کو بھی انہوں نے ڈھٹائی پر مبنی حکمت عملی کے تحت اسمبلی کی ایک سابقہ روایت کا سہارا لے کر عدم اعتماد پر بحث 28 مارچ تک ٹال دی۔ اپوزیشن ان کیخلاف آئین کی دفعہ 6 کے تحت کارروائی کا تقاضا کرتے کرتے ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاری بھی کرتی نظر آئی جس میں ڈپٹی سپیکر کے بھی آٹے کے ساتھ گھن کی طرح پیسے جانے کا ماحول بن گیا۔ 28 مارچ کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل فریقین (حکومت اور اپوزیشن) کی اپنی اپنی اور باہمی طویل نشستیں ہوئیں۔ اس سے ایک دن قبل وزیراعظم عمران خان پریڈ گرائونڈ اسلام آباد میں ایک بڑے پبلک اجتماع میں دو گھنٹے پر محیط اپنی تقریر میں اپنے خلاف مبینہ طور پر ہونیوالی عالمی سازش کی پرتیں اپنی واسکٹ کی اندرونی جیب میں موجود کاغذ کا ایک ٹکڑا باہر نکال کر اور ہوا میں اچھال کر کھول چکے تھے جو انکے بقول کسی بڑی بیرونی طاقت کی جانب سے انہیں لکھا گیا دھمکی آمیز خط تھا۔ اس خط پر پبلک کی جانب سے اپنے لئے ہمدردی کا ماحول بنانے کیلئے وہ ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف بیرونی مداخلت کے ذریعے ہونیوالی سازش کا تذکرہ کر چکے تھے۔ وہ ’’تین چوہوں‘‘ کے شکار کیلئے نکل کھڑے ہونے کا تو اپنے ہر پبلک جلسے میں رعونت کے ساتھ اعلان کرتے رہے ہیں جبکہ کمالیہ والے اپنے 26 مارچ کے جلسے اور اس سے اگلے روز پریڈ گرائونڈ اسلام آباد والے جلسے میں بالخصوص تین ریاستی اداروں الیکشن کمیشن‘ عدلیہ اور عساکر پاکستان کو بھی براہ راست اور بالواسطہ رگیدتے اور ان پر پھبتیاں کستے نظر آئے جو انکے بقول اپوزیشن کی جانب سے ’’وِن اوور‘‘ ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں۔
وزیراعظم صاحب کا ریاستی اداروں کے معاملہ میں یہ طرز عمل عقل و خرد کے مقابل آئین و قانون کی عملداری و پاسداری کو سیدھا سیدھا ٹھکراتا نظر آیا۔ الیکشن کمیشن اور عدلیہ کی جانب سے چونکہ انہیں اور انکی زود رنج ٹیم کو آئین کی دفعہ 63۔ اے کے معاملہ میں دو سو کیس کے حوالے سے مشرف کے نئے نئے فدوی ہونیوالے قانون دان رانا اعجاز احمد خان کے ’’پنچ سو‘‘ کیس پیش کرنے کے ’’فلسفے‘‘ جیسی من پسند تشریح قبول اور لاگو کرنے کا کوئی عندیہ نہ مل سکا اس لئے وزیراعظم صاحب بطور خاص انکے پیچھے لٹھ لے کر پڑے نظر آئے۔
یہ سوچ تو سیدھی سیدھی اداروں کے ساتھ ٹکرائو کی فضا گرماتی نظر آرہی تھی چنانچہ 28 مارچ کی شام چار بجے منعقد ہونیوالے قومی اسمبلی کے اجلاس میں سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے ہی طوفان اٹھانے کا اندیشہ لاحق ہو چکا تھا۔ مگر یہ کسی کی خاص حکمت عملی کے تحت ہی ہوا کہ سپیکر کی نشست پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری براجمان ہو گئے جنہوں نے اجلاس کی کارروائی کے آغاز ہی میں سرکاری بنچوں سمیت ارکان اسمبلی کو کارروائی کے دوران نعرہ بازی اور شورشرابا سے روک دیا۔ پھر ایجنڈے میں شامل سرکاری مسودات قانون پیش کراکے انکی رسمی منظوری دی اور پھر اپوزیشن لیڈر میاں شہبازشریف کو ہائوس میں وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی دعوت دے دی جس کے بعد انہوں نے اس تحریک پر بحث کیلئے اجلاس سپیکر اسدقیصر کی منصوبہ بندی کے برعکس غیرمعینہ مدت تک ملتوی کرنے کے بجائے 31 مارچ تک ملتوی کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ صورتحال اپوزیشن بنچوں پر بیٹھے اور گنتی میں شمار ہونیوالے 161 ارکان کیلئے خوشگوار حیرت کا باعث بنی جو پورے اعتماد کے ساتھ 31 مارچ سے 3 اپریل تک قومی اسمبلی کے ایوان میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے اور پی ٹی آئی حکومت کا دھڑن تختہ ہونے کے دعوے کرتے ہائوس سے باہر آگئے۔ اسی دوران پارلیمنٹ ہائوس کے باہر لانگ مارچ کی شکل میں لاہور اور پشاور سے اسلام آباد پہنچنے والے کارکنوں اور عوام کا اجتماع اپنے قائدین مولانا فضل الرحمان‘ شہباز شریف‘ بلاول بھٹو زرداری‘ مریم نواز اور پی ڈی ایم کے دوسرے اکابرین کے جلو میں شادمانی کے نقارے بجانے کی فضا گرما رہا تھا کہ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کیلئے روانہ ہونے کی اطلاعات نے رنگ میں بھنگ والا منظر بنا دیا۔ پھر اس ملاقات کے حوالے سے متضاد خبریں آنا شروع ہوئیں۔ کسی نے قیافہ لگایا کہ سپیکر چودھری پرویز الٰہی وزیراعظم سے الوداعی ملاقات کرنے آئے ہیں مگر پھر یکایک وزیراعظم کے ’’وسیم اکرم پلس‘‘ سردار عثمان بزدار کا استعفیٰ وزیراعظم کو موصول ہونے کی خبر گردش کرنے لگی۔ چودھری مونس الٰہی نے اسکی تصدیق کی اور ساتھ ہی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیلئے چودھری پرویز الٰہی کے وزیراعظم کے ساتھ معاملات طے پانے کا بھی اعلان کر دیا۔
پل پل بدلتے اس منظر کا اگلا اور اچانک نظارہ مسلم لیگ (ق) کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کے استعفیٰ کا تھا جنہوں نے خود اس کا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ انہوں نے اپنی پارٹی کے قائد چودھری شجاعت حسین کے ساتھ مشاورت کے بعد انکی رضامندی سے استعفیٰ دیا ہے۔ انکے اس اعلان سے بھی سانس روک کر بیٹھی اپوزیشن میں نئی جان پڑ گئی کہ ق لیگ کے وفاقی وزیر نے مستعفی ہونے کے بعد وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حق میں بھی ووٹ دینے کا اعلان کیا ہے تو چودھری پرویز الٰہی کا وزیراعظم کے ساتھ معاملہ طے پانے کی خبر کیسے درست ہو سکتی ہے۔ مگر وہ خبر درست ہی ثابت ہوئی اور خود وزیراعظم عمران خان نے اعلان کر دیا کہ انہوں نے چودھری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے نامزد کر دیا ہے۔
میری محو حیرت عقل اس منظر میں ہی الجھی ہوئی ہے کہ سیاست کے زریں اصولوں کو حرزِجاں بنانے کی داعی ہماری قومی سیاسی قیادتوں کے کون سے دعوئوں اور اعلانات کو انکی اصولی سیاست کے کھاتے میں ڈالا جائے۔ چودھری پرویز الٰہی کی وزیراعلیٰ کیلئے نامزدگی کے بعد بھی اپوزیشن قائدین نے ’’باپ‘‘ کے پانچ ارکان کو اپنے ساتھ بٹھا کر عدم اعتماد کے ساتھ کھڑے 168 ارکان باقاعدہ شو کر دیئے۔ ایم کیو ایم والے ابھی تیل کی ’’دھار‘‘ دیکھنے میں محو ہیں اور تمام تر حکومتی دعوئوں کے باوجود پی ٹی آئی کے منحرف ارکان ابھی تک خود وزیراعظم کی حمایت کیلئے منظر عام پر نہیں آئے۔ اگر اپوزیشن کا یہ اعتماد و یقین عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی والا ہے تو میرے ذہن میں کلبلاتا یہ سوال اقتداری مفاداتی سیاست کا کچھ اور ہی نقشہ کھینچتا نظر آتا ہے کہ کیا چودھری برادران سیاست میں گھاٹے کا سودا کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب اپوزیشن کیلئے مایوسیوں کی ’’پنڈ‘‘ اٹھا لائے تو اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔