وٹے سٹے دی کڑمائی گنجی گئی تے کانی آئی

آخری لمحات تک جو اطلاعات موصول ہو رہی ہیں انکے مطابق حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اب تک جو صورتحال واضع ہوئی ہے وہ کچھ اسطرح کا خاکہ پیش کر رہی ہے کہ متحدہ اپوزیشن کے پاس مل ملا کر انکے جو اپنے 162 ووٹ بن رہے تھے بلوچستان سے جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی کی بروز اتوار اور باپ پارٹی کے چار ارکان کی بروز سوموار حکومت سے علیحدگی کے اعلان کے بعد تحریک عدم اعتماد کیلیئے اپوزیشن کے پاس دستیاب ارکان کی تعداد اب 167 ہو گئی ہے۔ اسکے مقابل دوسری طرف جب حکومتی پارٹی کی طرف سے پنجاب کی وزارت اعلی پرویز الہی کو پیش کی گئی تو وہاں پر ایک دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہو گئی جب قاف لیگ کے بہاولپور سے منتخب ممبر اسمبلی طارق بشیر چیمہ نے ڈنکے کی چوٹ پر یہ اعلان کر دیا ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے موقع پر حکومت کی بجائے متحدہ اپوزیشن کے حق میں اپنا ووٹ کاسٹ کرینگے، جس سے اپوزیشن کے پاس دستیاب ارکان کی تعداد 168 ہو رہی ہے۔ اسکے علاوہ کچھ اس قسم کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ چوہدری پرویز الہی کے فیصلے میں چوہدری شجاعت کی رضامندی شامل نہیں اور عین ممکنات میں سے ہے کہ اس اختلاف کے سبب اس فورم سے اپوزیشن کے دستیاب ووٹوں میں دو یا تین ووٹوں کا اضافہ ہو جائے جبکہ ابھی ایم کیو ایم کا جھکاؤ کس طرف جاتا ہے یہ فیصلہ ابھی باقی ہے جو غالباً اس وقت آچکا ہو گا جس وقت یہ کالم آپکی نظروں سے گزر رہا ہو گا۔ یہ تو تھے اب تک کے زمینی حقائق جو سب کی نظروں کے سامنے آ چکے ہیں جس میں ایک اور بات کا بھی اضافہ کرتا چلوں کہ متحدہ اپوزیشن کے پارلیمانی اجلاس میں آج سابق صدر آصف علی زرداری نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں شہباز شریف کا بطور متبادل وزیراعظم اور رانا ثناء اللہ کا بطور متبادل وزیر داخلہ نام لیکر مسقبل کے عزائم کی ایک ہلکی سی جھلک تو دکھا دی لیکن مجھ جیسے طالبعلموں کی علمی پیاس کے لیئے اب بھی ایک جواب طلب معمہ چھوڑ دیا کہ پارلیمانی عہدوں کی بندر بانٹ کی اس ساری گیم جس میں سپیکر ڈپٹی سپیکر چیئرمین سینٹ متعدد گورنر کی تعیناتی کے عمل کے مکمل ہونے کے بعد اس ملک کا ایک اور آئینی عہدہ بھی ہے جو اگر یہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو وہ بھی گولہ باری کی زد میں آئے گا اور قوی امکان ہے کہ وہ بھی مواخذہ کی تحریک کی بھینٹ چڑھے گا، ایسے میں اس کرسی پر کون براجمان ہو گا، یہ ہے وہ معمہ جسکی طرف شائد بہت کم لوگوں کا دھیان جا رہا ہو۔ کہتے ہیں کہ نباض تو نباض فقیر بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں جسے تیسری آنکھ بھی کہا جاتا ہے اور یہ خاک نشین بین السطور کہی بعض باتوں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ اْٹھا لیتے ہیں۔ اس سباق میرے اس تجسس کو جواب اس وقت مل گیا جب باپ پارٹی کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران چاہے اسے انجانے میں کہیں یا قصداً کہ ایک سوال کے جواب کیلیئے شہباز شریف نے زرداری صاحب کی طرف مائیک بڑھاتے ہوئے جب یہ کہا کہ اس سوال کا جواب صدر زرداری دینگے۔ بلاول تو بیشک جب بھی اپنے باپ کا ذکر کرتا ہے تو وہ برملا صدر زرداری کہہ کر ہی اسکا تذکرہ کرتا ہے لیکن آج جب زرداری صاحب کے متعلق شہباز شریف کے منہ سے صدر زرداری کے الفاظ سنے تو مجھے بے ساختہ حبیب جالب کا یہ شعر یاد آ گیا
مفلس جو اگر تن کی قبا بیچ رہا ہے
 واعظ بھی تو منبر پہ دعا بیچ رہا ہے
دونوں کو ہے درپیش سوال اپنے شکم کا 
ایک اپنی خودی، ایک خدا بیچ رہا ہے
سوچ رہا ہوں شکم تو بہت دور کی بات انسان اپنے مفادات کی جنگ میں کیا کچھ بیچتا ہے،پاکستان کی اس سیاست نے ہمیں کیا کچھ نہیں دکھایا۔ بقول شخصے:
جنہیں قاتل لیگ کہا گیا انھے ڈپٹی پرائم منسٹر بنایا گیا ، جسے کوئی چپراسی نہ رکھے اسے وزیر بنایا گیا، جسے ٹانگہ پارٹی کہا گیا اس سے اتحاد کیا گیا، جنہیں پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا گیا اسے وزیراعلی کی کرسی پیش کی گئی، جنہیں قاتل قرار دیکر لندن میں مقدمات دائر کرنے کا کہا گیا انھے ایک نہیں دو نہیں تین تین وزارتوں کی پیش کش کی گئی، جن کے پیٹ پھاڑ کر سڑکوں پر گھسیٹ کر پیسے نکلوانے کی باتیں کی گئیں انکے لیئے ایکْ دفعہ پھر صدارت کی کرسی کے عزائم، جن کے متعلق یہ کہا گیا کہ اگر انکے ساتھ چلا گیا تو اللہ میاں بھی معاف نہیں کریگا انکے ساتھ جب بغلگیر ہوتے دیکھتا ہوں تو خدا یاد آ جاتا ہے کہ اے انسان تْو کس کو دھوکہ دے رہا ہے اپنے اپ کو یا اپنے خدا کو، ایسے میں اندر سے ایک آواز آ رہی ہے کہ اپنے اندر جھانک کر تو دیکھ خدا تیرے اندر بیٹھا ہے اے انسان تو خدا کے ساتھ ساتھ اپنے آپکو بھی دھوکہ دے رہا ہے۔اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اس تحریک عدم اعتماد کا کیا انجام ہو گا لیکن ایک بات ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اقتدار کی اس ہوس میں اس گیم کے ہر کھلاڑی نے اپنے اپنے ظرف کے مطابق اپنے کردار اور اپنی گفتار سے اپنے آپ پر عدم اعتماد ضرور کیا ہے اور پورے سسٹم کے گند کو بیچ چوراہے لا کر پورے ملک کی فضاء کو مکدر کر دیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن