ذاتی اناء اور خود پسندی ایسی بیماری ہے جس کا علاج ناممکن ہے، ویسے تو دنیا میں کوئی چیز ناممکن نہیں لیکن انسانی فطرت کے باعث اناء اور بے شمار خود غرضی جیسے امراض انسان میں پیدا ہوجاتے ہیں اور بندہ اسے اپنی کامیابی اور قابلیت سمجھ بیٹھتا ہے ، ایسے افراد معاشرے میں ناسور کی حیثیت رکھتے ہیں ، دماغی صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ عام مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ خود پسندی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ برطانوی کنسلٹنٹ ڈاکٹر ٹینیسن لی خود پسندی کی لاحق بیماری کو پرکھنے کے دنیا میں رائج نو نکات بتاتے ہیں ، ان نقاط کو زیرِ بحث لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کسی شخص میں نو نکات میں سے پانچ نکات ہوں تو وہ شخص خود پسندی کا مریض قرار دیا جا تا ہے، ان میں ۔اپنی اہمیت کا انتہائی احساس ہونا۔کامیابی اور طاقت کے بارے میں وہم ہونا ۔ اپنے آپ کو انوکھا اور منفرد خیال کرنا ۔ سراہے جانے کی حد سے زیادہ طلب ۔ ہر چیز پر اپنا حق سمجھنا۔ باہمی رشتوں میں صرف اپنے بارے میں سوچنا ۔ ہمدردی کے احساس کی کمی۔ ہر ایک پر شک کرنا ۔ مغرور اور گھمنڈ رویہ رکھنا ۔ڈاکٹر لی کے مطابق یہ اس وقت کہا جا سکتا ہے جب ان خصوصیات کی وجہ سے ایسے افراد اپنے لئے یا دوسروں کیلئے پریشانیاں اور مشکلات پیدا کرنا شروع کر دیں ، ایسے خود پسند لوگوں کو دوسروں سے فائدہ اٹھانے میں مزہ آتا ہے۔ ملکی حالات و واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مرض میں مبتلا افراد کے ہاتھوں معاشرتی بگاڑ انتہا ء تک پہنچ چکا ہے لیکن ضد اور اناء میں معیشت کے ڈوبنے کا کسی سٹیک ہولڈرز کو خیال نہیں ، خزانے اور محصولات کے وزیر شوکت ترین نے عام آدمی کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کیلئے جامع اور پائیدار معاشی ترقی کی ضرورت پر زور دیا ہے جبکہ حکمرانوں کا زور اپنے مخالفین پر الزام تراشیوں ،دھونس اور دھمکیوں پر ہے ، جو کہ حکومتِ وقت کیلئے لمحہء فکریہ ہے۔ملک کی سیاسی فضاء میں رسہ کشی کا عالم ہے ، ہائی زور ہائی زور کی آوازیں ہیں ، وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے معاون ِ خصوصی حسان خاور کا پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں ذہنی مریضوں سے رسہ کشی کا مقابلہ کرنے کی کیمسٹری سمجھ سے بالا تر ہے ، عقل و شعور رسہ کشی کے تنائو میں کھنچ گیا ہے ، احساس کی طنابیں ڈھیلی پڑ گئی ہیں ، دل کی آہنگ سنائی نہیں دیتی ، ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت کے دعویداروں کے مابین جمہویت ’’رضیہ ‘‘ بن کے پھنس گئی ہے ۔ملک میں قیادت کا فقدان تو تھا ہی اب دور اندیشی اور عقل کے فقدان کا یہ حال ہے کہ ملکی مفادات کو گروہی معاملات پر قربان کیا جارہا ہے ، خطے کے حالات انتہائی کشیدہ ہیں ، کشمیر میں ہندوستان نے کشمیری مسلمانوں کا جینا محال کر رکھا ہے ، وادی میں بھارتی فوج کے محاصرے کو آج 968 واں دن ہے، بھارتی ظلم و بر بریت پر ساری مسلم دنیاتماشائی بنی ہوئی ہے،یہاں تک کہ کسی مسلم ملک نے بھارت سے تجارت میں کوئی کمی بیشی نہیں کی ،پاکستان کو بھارت سے انتہائی درجہ کے خطرات ہیں ، روس یوکرین سے حالتِ جنگ میں ہے ،ایران سے تعلقات سرد ہیں ، اسلام آباد میں منعقدہ او آئی سی کی کانفرنس میں افغانستان، بنگلہ دیش اور ایران کی عدم شرکت سے حکومت کی پڑوسی ممالک کیساتھ تعلقات پر مبنی سردپالیسی ظاہر ہوتی ہے ، افغانستان جس کیلئے او آئی سی کا اجلاس بلایا گیا اور اس اجلاس میں افغانستان کیلئے متعدد قراردادیں بھی پاس کی گئیں ، اس کا شامل نا ہونا حکومت کی خارجہ پالیسی اور پڑوسی ملک سے تعلقات میں کشیدگی ظاہر کرتا ہے۔ ملک کی اپوزیشن جماعتوں نے جب سے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کیخلاف تحریک ِعدم اعتماد جمع کرائی ہے حکومت وقت اسقدرطیش میں ہے کہ ملک میں انتشار کی سی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے ، اس سے پہلے کی حکومتوں کیخلاف بھی تحریکِ عدم لائی گئی لیکن کسی نے اس طرح کا جارحانہ اور غیر اخلاقی رویہ نہیں اپنایا، لگتا ہے تحریکِ عدم اعتماد نے عمران خان کے ذہن کو جکڑ لیا ہے ،کبھی وہ اپوزیشن کو غیرمہذب القاب دیتے ہوئے انکی تذلیل کرتے ہیں ، تو کبھی عالمی سازشوں کا شوشہ چھوڑتے ہیں ، اپنے ہر بیان میں اپوزیشن کو سرپرائز دینے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں لیکن وہ سرپرئز مداری کی ڈبیہ کی طرح ہی ہوتا ہے ، مداری ڈگڈگی بجاتے ہوئے مجمع اکھٹا کرتا ہے اور ڈبیہ کو اپنے سامنے رکھ لیتا ہے اور کہتا ہے اس میں ایسی چیز ہے جسے آپ دیکھ کر حیران ہوجائینگے ، جب تماشہ طول پکڑتا ہے اور لوگ اکتا کرجیسے ہی جانے لگتے ہیں تو مداری ان کو ڈبیہ میں چھپی چیز دکھانے کیلئے کہتا ہے اپنی جگہ سے نا ہلیں میں آپ کو حیران کر دینے والی چیز جلد دکھائوں گا ، لیکن آخر تک وہ چیز تو نہیں دکھاتا لیکن مجمع میں کھڑے لوگوں کو جذباتی روداد سنا کر پیسے بٹور کر چلا جاتا ہے ۔ قلندر کی یہ بات ذہن نشین کر لیں ملک کی نوجوان نسل کو تعمیری سوچ اور ادبی ماحول کی اشد ضرورت ہے ، ملک کی اعلیٰ شخصیات سیاست میں غیر مہذب الفاظ اور ادب سے عاری رویہ اسی طرح جاری رکھیں گے، تو معاشرہ بے ادبی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہوجائے گا، اللہ کے نیک بندے بے غرض، ریا کاری، طمع، حرص لالچ اور منافقت سے پاک ہوتے ہیں ، ملکی معاملات کو دانش مندی اور عقل و شعور سے حل کرنے میں ہی ملک اور معاشرے کی بہتری ہے۔