جولین اسانج ، وکی لیکس کے بانی پچاس سالہ آسٹریلین صحافی، ایک کمپیوٹر ہیکر، مدیر اور سوشل ایٹکوسٹ جو دو ہزار چھ سے تمام دنیا میں وکی لیکس کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے امریکی آرمی کی انٹیلیجنس خفیہ رپورٹوں کی لیکیج جو کہ بغداد کے اوپر فضائی حملے کے دوران مرنے والے معصوم عوام کے مارے جانے کی بارے میں ایک ویڈیو پر مشتمل تھی اور افغانستان عراق شام میں مارے جانے والے بے گناہ لوگوں اور ان کے ساتھ ساتھ ان سے پیدا شدہ ضمنی نقصانات پر دنیا میں ہزاروں رپورٹوں پر مشتمل لیکس پر مشتمل تھیں جن سے امریکی بربریت اور اسلحے کے بے رحمانہ استعمال کا عام لوگوں پر دستاویزاتی ثبوتوں کے ذریے انکشاف ہوا جس کا امریکی حکومت کو شدید قلق ہوا اور ان کی خفیہ بے رحمانہ کاروائیوں کے طشت از بام ہونے سے امریکی خفیہ اداروں کی گھناونی حرکتوں سے امریکی حکومت کی تمام دنیا میں رسوائی ہوئی اور وہ مغربی اور امریکی حکومتیں جو بظاہر انسانی بنیادی حقوق کا علم اٹھائے پھرتی ہیں اور بنیادی حقوق کی مالا جپتے نہیں تھکتی ہیں ان کے اندر کا ظالمانہ ہٹلر کھل کر باہر آگیا۔ وہ دن اور آج کا دن ان کی ان بہیمانہ کرتوتوں کو سامنے لانے کی جرات کرنے والے جولین اسانج پر خفیہ رازوں کی چوری اورجاسوسی کے جرم میں ملوث ہونے کے الزام لگائے گئے اور اس کو پس دیوار زنداں دھکیل دیا گیا۔ کبھی اس پر جنسی ہراسمنٹ کے الزامات لگائے گئے اور امریکی حکومت نے اس کی سرگرمیوں اور وکی لیکس کی اسی طرح تحقیق شروع کی جیسے کسی مجرم کی تفتیش کرنا مقصود ہو اور اب اسانج کو امریکا میں لا کر اس پر مقدمہ چلانے کی سرتوڑ کوشش میں ہے۔ آپ بقین کریں میں یہی سمجھتا تھا کہ ہمارے جیسے تیسری نو مولود جمہوریتوں اور ملکوں میں ہی مزاحمتی لکھاریوں جیسے حبیب جالب ، فیض ، فراز جیسے لوگوں کو آئے دن جیل کی یاترا کرنا پڑتی ہے یا بیرون ملک پناہ اختیار کرنا پڑتی ہے اور ان کے خاندانوں کو بھی ان کے ساتھ رگڑے کھانے پڑتے ہیں۔بلاشک و شبہ ، حریت پسندوں جیسے مولانا ظفر علی خان ، مزاحمتی کر داروں جیسے شورش کاشمیری ہمارے ہاںبھی بھوک ہڑتال اور قیدو بند میں سے گزرتے رہتے ہیں لیکن جولین اسانج کے ساتھ کچھ اس لئے امریکہ حضور سخت رویہ اپنا رہا ہے کہ اس مرد قلندر نے ان کے اندر کی منافقت کو سر عام ظاہر کر دیا ہے اور ان کے انسانی حقوق کو تہس نہس کرنے کی عملی ثبوت وکی لیکس کی شکل میں ظاہر کر کے عام عوام ، بلکہ تمام دنیا کے سامنے پیش کر کے یورپ اور مغرب کو ننگا کر دیا ہے اور ان کو زیادہ تکلیف اس لئے ہوئی ہے کہ اگر کوئی مسلم یا تیسری دنیا سے کوئی یہ جرم کرتا تو وہ اس کو بیرونی ایجنٹ یا دہشت گرد قرار دیتے لیکن یہ تو ایک آسٹریلوی نزاد صحافی کی ضمیر کی آواز تھی جو ان کے خفیہ ای میلز کو دیکھ اور پڑھ کر برداشت نہ کر سکا اور بے گناہ قتل ہونے والے مسلمانوں کی افغانستان اور عراق کی وڈیوز دنیا کے سامنے لے آیا ۔ قارئین عراق میں فلوجہ میں بہیمانہ ماراجانا ہیل فائر میزائل ،ڈرونز کا یمن عرب دنیامیں ظالمانہ استعمال،ماورائے عدالت قتل،تبت میں بدامنی ہڑتالیں اور پیرو جیسے ملک میں آئل سکینڈل میں ملوث ہونا، گوآنتاما بے میں قید یوں کے ساتھ برتائو کا عملی کتابچہ، قیدیوں کے ساتھ بہیمانہ برتائو کی آٹھ سو خفیہ دستاویزات، دوہزار بارہ میں شام ملک پر حملے پر بیس لاکھ سے زیادہ ایمیلز،عراق کی جنگ میں ایک لاکھ سے زیادہ اموات پر میلزاور امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو بھیجی گئی کلاسیسیفائڈ کیبلز اور مجموعی طور پر دو ہزار چھ سے دو ہزار اٹھارہ تک ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ تک امریکاکی اپنی ہی مختلف ممالک میں خفیہ منفی حرکات پر میلز چھاپ، ہیک کر کے امریکا کو ننگا کر دیا ۔ مزید بر آں ایران کی ایٹمی تنصیبات پرپردو ہزار نو میں مبینہ امریکہ اور اسرائیل کے پر سائیبر حملہ سے ایٹمی نقصان ہواجس کو بعد میں اس واقعے کو ایران میں صرف ایک ایٹمی حادثہ قرار دیا گیا تھا۔ مختلف ممالک میں امریکی بربریت کی جھلک دکھانے کا سہرا اس حریت پسنددلیر اور مزاحمتی کردار والے شخص کے نام ہے جس کو دنیا جولین اسانج کے نام سے جانتی ہے آج اگرچہ امریکا نے اس کو دس سال سے زیادہ جیل میں رکھاہوا ہے تا کہ آئندہ مغربی ممالک کا کوئی باشندہ اس طرح کی جرأت کا ارتکاب نہ کرے۔ قارئین اب تو اس کے کیس کو سننے والی برطانیہ کی جج یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ جولین اسانج کو اتنا ٹارچر کیا گیا ہے اور اس کو اتنی تکلیفوں کا سامنا ہے کہ کہیں وہ خود کشی پر مجبور نہ ہو جائے۔ قارئین جولین تقریبا دس سالوں سے گھر سے بے گھر ہے ا ور وہ غیر ملک کے ایک سفارت خانے میں ہے قید ہے اور سیاسی پنا ہ گزین کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے اسی کو کہتے ہیں۔ اس کی دستاویزات اور ای میلز جس میں خفیہ ویڈیوز میں جس کی تعداد انیس ہزار سے بھی زیادہ تھی ان میں۔ افغان جنگ سے متعلقہ وکی لیکس میں امریکا اور پاکستان پر ان کے دوہرے کردار کا ذکرہے ۔