اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چار ججز نے انتخابات از خود نوٹس مسترد کیا، اپنے تحریری فیصلے پر قائم ہوں، جب آرڈر آف دی کورٹ جاری نہیں ہوا تو صدر نے الیکشن کی تاریخ کیسے دی؟ الیکشن کمشن نے کیسے الیکشن شیڈول جاری کیا؟۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اختلافی نوٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، اقلیت کسی قانون کے تحت خود کو اکثریت کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے پنجاب اور کے پی کے انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف عمران خان کی درخواست کی سماعت کی۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یوآئی ف نے کیس میں پارٹی بننے کی متفرق درخواست دائر کردی۔ پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جسٹس جمال کے ریمارکس کے بعد فل کورٹ بنائی جائے۔ جسٹس جمال نے کہا کہ فل کورٹ کیوں؟ وہی 7 ججز بنچ میں بیٹھنے چاہئیں۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پہلے فیصلہ کریں کہ 4/ 3 کا یا 3/2 کا فیصلہ تھا، ساری قوم ابہام میں ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چار ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں، ہمارے حساب سے فیصلہ چار ججز کا ہے، چیف جسٹس نے آج تک آرڈر آف دا کورٹ جاری نہیں کیا، جب آرڈر آف کورٹ نہیں تھا تو صدر مملکت نے تاریخ کیسے دی، جب آرڈر آف کورٹ نہیں تو الیکشن کمیشن نے شیڈول کیسے دیا؟، الیکشن کمیشن نے کس حکم کے تحت فیصلے پر عملدرآمد کیا؟ الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا، الیکشن کمیشن کی سمجھ کے مطابق فیصلہ 3/2 کا تھا، عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر سے رجوع کیا ، صدر مملکت نے تیس اپریل کی تاریخ دی، کمیشن نے تاریخ مقرر کرنے کے بعد شیڈول جاری کیا اور انتخابات کی تیاریاں شروع کردی، آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن 90 روز میں ہونا ہیں، عدالتی آرڈر میں لکھا ہے کہ فیصلہ 3/2 سے ہے، 3/2 والے فیصلے پر پانچ ججز کے دستخط ہیں، کمیشن نے فیصلے کے پیراگراف 14 اور ابتداء کی سطروں کو پڑھ کر عمل کیا، ممکن ہے کہ ہمارے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کیا مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، یکم مارچ کے اختلافی نوٹ میں کہیں نہیں لکھا کہ فیصلہ 4/3 کا ہے، اختلاف رائے جج کا حق ہے، مگر اقلیت کسی قانون کے تحت خود کو اکثریت میں ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی، کھلی عدالت میں پانچ ججز نے مقدمہ سنا اور فیصلے پر دستخط کیے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مختصر حکم نامے میں لکھا ہے کہ اختلافی نوٹ لکھے گئے ہیں، اختلافی نوٹ میں واضح لکھا ہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور اطہر من اللہ ہمارے فیصلے سے متفق ہیں، کیا جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ الیکشن سے متعلق آرڈر 22 مارچ کی شام کو جاری کیا، الیکشن کمیشن نے فوج رینجرز اور ایف سی کو سکیورٹی کے لیے خط لکھے، فوج نے الیکشن کمیشن کو جوان دینے سے انکار کیا، ایجنسیوں نے الیکشن کمیشن کو خفیہ رپورٹس دیں ، جن میں بھکر میانوالی میں ٹی ٹی پی سندھو دیش مختلف کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہر کی گئی، ہمیں دو لاکھ 97 ہزار سکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے، وزارت داخلہ نے بھی 8 فروری کے خط میں امن و امان کی خراب صورتحال کا کہا، وزارت خزانہ نے بتایا کہ موجودہ مالی سال میں الیکشن کے لیے فنڈز جاری نہیں کر سکتے، سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ بیس ارب روپے جاری کرنا ناممکن ہوگا، سپیشل سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ ان حالات میں پرامن انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکتا۔ جسٹس منیب نے کہا کہ کیا آپ کو فروری میں خیال تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے، اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن تو ہر صورت 2023 میں ہونا تھے، کیا بجٹ میں 2023 الیکشن کیلئے بجٹ نہیں رکھا گیا تھا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انتخابات کیلئے بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے، قبل ازوقت اسمبلی تحلیل ہوئی اس کا علم نہیں تھا، ملک بھر میں ایک ہی دفعہ انتخابات ہوں تو 47ارب روپے خرچ ہوں گے، انتخابات الگ الگ ہوں تو 20 ارب روپے اضافی خرچ ہوگا۔ وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیے کہ سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی نے بتایا کہ کے پی کے میں کالعدم تنظیموں نے متوازی حکومتیں بنا رکھی ہیں، خفیہ رپورٹس میں بتایا گیا کہ مختلف دہشتگرد تنظیمیں متحرک ہیں، خیبر پی کے کے مختلف علاقوں میں شیڈو حکومتیں قائم ہیں، خفیہ رپورٹس کے مطابق ان خطرات سے نکلنے میں چھ سے سات ماہ لگیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو معلومات آپ دے رہے ہیں وہ سنگین نوعیت کی ہیں ، کیا آپ یہ باتیں صدر مملکت کے علم میں لائے، اگر صدر پاکستان کو نہیں بتایا تو آپ نے غلطی کی ہے ، صدر نے تاریخ الیکشن کمیشن کے مشورے سے دی تھی، خفیہ رپورٹس میں کہا گیا کہ علاقوں کو کلیئر کرنے میں چھ ماہ لگیں گے، پنجاب میں کچے کا آپریشن کب مکمل ہوگا ؟۔ سجیل سواتی نے جواب دیا کہ پنجاب کے مطابق کچے کا آپریشن مکمل ہونے میں چھ ماہ تک لگ جائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بیس سال سے ملک میں دہشتگردی کا مسئلہ ہے، اس کے باوجود ملک میں انتخابات ہوتے رہے ہیں، 90 کی دہائی میں تین دفعہ الیکشن ہوئے، جب فرقہ واریت اور دہشت گردی عروج پر تھی، 58/2 بی کے ہوتے ہوئے ہر تین سال بعد اسمبلی توڑ دی جاتی تھی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر ادارے آپکو معاونت فراہم کریں تو کیا آپ الیکشن کرواینگے ، بظاہر الیکشن کمیشن کا سارا مقدمہ خطوط پر ہے ، جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ اگر ادارے آپ کو معاونت فراہم کریں تو کیا آپ الیکشن کروائیں گے ، بظاہر الیکشن کمیشن کا سارا مقدمہ خطوط پر ہے ، الیکشن کمیشن کا مس?لہ فنڈزکی دستیابی کا ہے۔ وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ فنڈز اور اداروں سے معاونت مل جائے تو پنجاب میں الیکشن کروانے کے لیے تیار ہیں۔ جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن خود کو آئینی ادارہ کہتا ہے، دو اسمبلیاں تحلیل ہیں الیکشن کروانا کمیشن کی ذمہ داری ہے، کمیشن شیڈول جاری کرتا ہے، اور اچانک سے اپنا فیصلہ بدل دیتا ہے، الیکشن کمیشن کا مقدمہ آرٹیکل 218 کا ہے، الیکشن کمیشن نے فیصلہ کرنے سے پہلے عدالت سے رجوع کیوں نہیں کیا۔ سجیل سواتی نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی حکم پر عمل کیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ جس عدالتی حکم پر تمام ججز کے دستخط ہیں وہ کہاں ہے؟ صبح سے پوچھ رہا ہوں کوئی بھی عدالتی حکم سامنے نہیں لا رہا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جہاں مسئلہ زیادہ ہے اس ضلع میں انتخابات موخر بھی ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے کچے کے آپریشن کیوجہ سے پورے پنجاب میں الیکشن ملتوی کردیا، کے پی کے میں الیکشن کی تاریخ دیکر واپس لی گئی، 8 اکتوبر کی تاریخ پہلے سے مقرر کی گئی، 8 اکتوبر کو کونسا جادو ہو جائے گا جو سب ٹھیک ہو جائے گا، 8 اکتوبر کی جگہ 8 ستمبر یا 8 اگست کیوں نہیں ہوسکتی۔ وکیل ای سی پی نے کہا کہ 6 ماہ کا وقت مکمل ہونے کے بعد 8 اکتوبر کو پہلا اتوار بنتا ہے، 8 اکتوبر کی تاریخ عبوری جائزے کے بعد دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عبوری جائزے کا مطلب ہے کہ انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں، عدالت کو پکی بات چاہیے۔ وکیل سجیل سواتی نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن کی 8 اکتوبر کی تاریخ عارضی نہیں ہے، اگر کچھ علاقوں میں انتخابات کرائیں تو ایجنسیوں کے مطابق وہیں دہشتگردی کا فوکس ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر اور اٹارنی جنرل کو سیاسی درجہ حرارت کم کرنے پر ہدایت لیکر آگاہ کرنے کا کہا تھا، سیاسی درجہ حرارت کم ہونے تک انتحابات پر امن نہیں سکتے، کسی فریق نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی یقین دہانی نہیں کرائی۔ پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت کو مکمل یقین دہانی کروانے کے لیے تیار ہیں، چیرمین پی ٹی آئی کی جانب سے تحریری یقین دہانی کروائیں گے۔ جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن وضاحت کرے کہ الیکشنز 6 ماہ آگے کیوں کردیے؟ انتخابی شیڈول پر عمل شروع ہوگیا تھا، اگر کوئی مشکل تھی تو عدالت آجاتے، الیکشن کمیشن اپنی زمہ داری سے کیسے بھاگ سکتا ہے، کیا انتخابات میں 6 ماہ کی تاخیر آئینی مدت کی خلاف ورزی نہیں، سیکشن 58 الیکشن کمیشن کو تاریخ بڑھانے کی اجازت نہیں دیتا۔ سجیل سواتی نے جواب دیا کہ تاریخ مقرر ہوجائے تو اسے بڑھانے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے، صرف پولنگ کا دن نہیں پورا الیکشن پروگرام موخر کیا ہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن پروگرام تبدیل کرسکتا ہے تاریخ نہیں، گورنر اور صدر کو دی گئی تاریخ الیکشن کمیشن کیسے تبدیل کر سکتا ہے، کیا الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 آئین سے بالا تر ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کمیشن کو سپریم کورٹ سے رجوع کر کے قائل کرنا چاہئے تھا، آپ آج ہی عدالت کو قائل کرلیں۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ صدر کو تجویز کردہ تاریخ کمیشن کی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی، صدر کو فروری میں ہونے والے اجلاسوں سے کیوں آگاہ نہیں کیا گیا، جب معلوم تھا کہ 30 اپریل کو الیکشن نہیں ہوسکتے تو تاریخ تجویز ہی کیوں کی گئی۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ معاملہ کی حساسیت کا اندازہ مارچ میں ہوا، حالات کا جائزہ لینا الیکشن کمیشن کا کام ہے صدر کا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پرانا شیڈول ختم کرکے نیا شیڈول جاری نہیں کیا، بلکہ 8 اکتوبر کو جھنڈا لگا دیا ہے، آپ چاہتے ہیں عدالت 8 اکتوبر کی تاریخ پر مہر لگائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر انتظامی ادارے تعاون نہیں کر رہے تھے تو عدالت کو بتاتے، اگر پیسے اور سکیورٹی مل جائے تو تیس اپریل کو انتخابات ہو سکتے ہیں۔ وکیل سجیل سواتی نے بھی کہا کہ حکومتی معاونت مل جائے تو تیس اپریل کو انتخابات کروا سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن راستہ نہیں ڈھونڈ سکتا تو ہم ڈھونڈیں گے، 1988 میں بھی عدالت کے حکم پر الیکشن تاخیر سے ہوئے تھے، 2008 میں حالات ایسے تھے کہ کسی نے انتخابات ملتوی کرنے پہ اعتراض نہیں کیا، اللہ کرے 2008 والا واقعہ دوبارہ نہ ہو، آرٹیکل 218-3 آرٹیکل 224 سے بالاتر کیسے ہوسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شفاف انتخابات نہیں ہوں گے تو کیا ہو گا؟ ساز گار ماحول کا کیا مطلب ہے کہ کوئی کسی پر انگلی نہ اٹھائے، چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑے تو ہر ملک میں ہوتے ہیں، اصل معاملہ یہ ہے کہ اسلحہ کا استعمال نہ ہو، اگر معمولی جھگڑا بھی نہیں چاہتے تو ایسا نظام بنائیں لوگ گھر سے ہی ووٹ کاسٹ کریں، حکومت سے پوچھتے ہیں کہ چھ ماہ کا عرصہ کم ہو سکتا ہے یا نہیں، سمندر پار پاکستانی ووٹ کا حق مانگتے ہیں سپریم کورٹ کا حکم بھی موجود ہے، الیکشن کمیشن نے ابھی تک سمندر پار پاکستانیوں کی ووٹنگ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کے بغیر جمہوری حکومتیں نہیں آ سکتیں، دو وزرائے اعلی نے اچھا یا برا اسمبلی تحلیل کرنے کا اپنا اختیار استعمال کیا، وزارت داخلہ اور دفاع سے حالات بہتری کے لیے کم سے کم وقت پوچھ کر بتائیں، انتخابات دو دن بھی ہو سکتے ہیں، اگر ایک دن ممکن نہ ہوں، وزارت داخلہ اور دفاع بتائیں کہ الیکشن کی کم از کم ممکنہ تاریخ کیا ہے؟۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ پنجاب کی نگراں حکومت کا الیکشن کی تاخیر پر کیا موقف ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ صوبے میں پہلے الیکشن ہوئے تو قومی اسمبلی کا انتخاب متاثر ہو گا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نگران حکومت اپنی مدت میں توسیع کیسے کر سکتی ہے، اس قسم کا نقطہ نگران حکومت کیسے اٹھا سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا پنجاب حکومت اپنی حد تک الیکشن کمیشن کی معاونت کر سکتی ہے؟۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ پولیس اہلکار مصروف ہیں اس لیے افواج کی تعیناتی کا کہا تھا، دستیاب وسائل میں رہ کر الیکشن کمیشن کی معاونت کر سکتے ہیں۔ کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔ اٹارنی جنرل دلائل دیں گے۔ انتخابات ازخود نوٹس کیس میں رجسٹرار آفس سپریم کورٹ نے ن لیگ، پیپلز پارٹی،جے یوآئی کی فریق بننے کی درخواستیں وصول کرلیں۔