ندیم بسرا
پاکستان کے سیاسی اور معاشی مسائل ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ،پارلیمان جہاں یہ مسائل طے ہونے ہیں وہاں ان کو زیر بحث اتنا ہی لایا جاتا ہے جتنا عام لوگوں کی گفتگو میں موسم کا ذکر ہوتا ہے تو مسائل جوں کے توں ہیں ان کے حل کے لئے جب تک عملی اقدامات نہیں کئے جاتے اس وقت تک عوام کی آرائ موجودہ حکمرانوں کے بارے میں نہیں بدلے گی۔بحرحال سپریم کورٹ کی عدالتی اصلاحات کے حوالے سے قانون سازی ،پنجاب میں پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور ایم پے ایز کی لوٹ مارکے الزمات ،آٹے کے حصول کیلئے جانے والے شہریوںکے مسائل ،عمران خان کی نااہلی،الیکشن کی تاریخ اور رمضان البارک میں مہنگائی اور فروٹ (پھلوں کا بائیکاٹ )ہی ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے۔رمضاب المبار ک آتے ہی مہنگائی مہنگائی کی آوازیں آناا شروع ہو جاتی ہے۔دنیا کے اندر غیر مسلم ممالک میںمسلمانوں کے لیئے رمضان کے سپیشل پیکجز دئے جاتے ہیں ،عرب ممالک میں بھی کئی قسم کی رعایتیں دی جاتی ہیں ،پاکستان میں عجیب قسم کا رواج ہے جیسے ہی رمضان آنے لگتا ہے ہر طرف سے یہی شور آتا ہے کہ ہائے مہنگائی مہنگائی ، پھلوں سبزیوں کے نرخ آسمانوں سے باتیں کرتے ہیں اور انتظامیہ رمضان المبار میںدفاتر تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ڈیجیٹل میڈیا پر اس دفعہ فروٹ بائیکاٹ کے نعرے لگتے رہے اور ٹاپ ٹرینڈ بھی ریا جس سے کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور ہوئی یہ ریلیف انتظامیہ کو دینی چاہئے تھی۔ پنجاب میںمستحق افرادمیں مفت آٹے کی تقسیم کی سکیم بہت زبردست ہے ،مگر اس کو شروع کرنے سے قبل انتظامیہ اور نگران حکومت نے مکمل ہوم ورک نہیں کیااور اوپر سے ہماری عوام جو دوسرے کے حصے کا آٹا بھی لینا چاہتی تھی،دونوں عوامل کے باعث قیمتی جانوں کا ضیاع روزانہ کی بنیاد پر ہورہا ہے اس پر نگران وزیراعلی پنجاب محسن نقوی کو چاہئے کہ وہ مانیٹرنگ کو مزید سخت کریں ،افسران کو فیلڈ میں بجھوائیں تاکہ بھگدڑاور افراتفری سے نقصان کم ہو۔
محکمہ اینٹی کرپشن نے پاکستان تحریک انصاف کے سابق ایم این ایز اور ایم پی ایزکے میاں محمود الرشید ،میاں اسلم اقبال ،ملک ندیم بار ا،ملک کرامت کھوکھر،شبیر گجر، ظہیر عباس کھوکھر کے خلاف کرپشن اورقومی خزانے کو اربوں روپے نقصان پہنچانے پر تحقیقات کا آغازکردیا ہے ،بتایا گیا ہے کہ میاں محمود الرشید اور میاں اسلم اقبال پر الزام ہے کہ ملک راشد نامی ٹھکیدار کو ایم سی ایل میں اربوں روپے بوگس ادائیگیاں کی گئیں،اسی پر ایم سی ایل کے سی ای او سمیت دیگر متعلقہ افسران کے خلاف بھی مقدمہ درج کرنے کا کہا گیا ہے۔میاں محمود الرشید کے خلاف ایک رپوٹ میں بتایا گیا ہے کہ میاں محمود الرشید سابقہ منسٹر نے میاں عامر ،لیاقت بلوچ اور احمد علی چھٹہ سابقہ رجسٹر ار پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ ملی بھگت کرکے یونیورسٹی کی 80کنال اراضی مارکیٹ ویلیو سے کم قیمت پر لیز پر خریدی ہے اور معاہدہ ختم ہونے کے بعد بھی قبضہ نہ چھوڑا ہے اور نہ ہی لیز کی رقم جمع کروائی گئی ہے۔ تفتیش سرکل آفیسر لاہور کو سونپی گئی ہے ،میاں اسلم اقبال کے حوالے سے بنائی گئی رپورٹ میںکہا گیا کہ 2018میں TEVTAمیں ہونے والے 400 بھرتیوں میں40کے قریب سیاسی اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے نان ٹیکنیکل افراد فی کس بیس لاکھ روپے رشوت کے عوض بھر تی کے گئے ہے جس میں سابقہ سیکرٹری بورڈ زوالفقار چیمہ کی معاونت اور فرنٹ مین خواجہ عاصم اور مہر النساءکی مدد سے رشوت وصول کرنے کا الزام ہے۔ملک کرامت کھوکھر کے خلاف اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ،پی آئی اے سوسائٹی میں کروڑوں روپے مالیت کے پلازے پر قبضے کا الزام ہے،ملک ندیم بارا کے خلاف پٹواری حلقہ موضع ٹھوکر نیاز بیگ سے سازباز کرکے موضع نیاز بیگ لاہور قبرستان کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کا الزام ہے۔پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے شبیر گجرکے خلاف محکمہ واسا سے وفاقی کالونی جوہر ٹاو¿ن میں ترقیاتی سکیموں کے نام پر کا م کروائے بغیر سرکاری خزانے سے رقم وصول کرنے کا الزام ہے، ظہیر عباس کھوکھر سابق ایم پی اے کے خلاف بھی محکمہ واسا اور ایم سی ایل کے افسران کے ساتھ ملی بھگت کرتے ہوئے نشتر کالونی لاہور کی گلیوں کی سکیموں کے کام بھی کروائے بغیر سکیموں کی رقم قومی خزانے سے وصول کرنے کا الزام عائدہے۔اب یہ الزامات درست ہیں یا غلط اس کی انکوائری رپورٹ کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا کہ کون سچا ہے یا یا جھوٹا ؟،محکمہ کو ان کے خلاف ثبوتوں کی بنیاد پر کاروائی کرنی ہوگی اور انہیں ثابت کرنا ہوگاکہ وہ واقعی ملوث ہیں۔جن پر الزامات ہیں وہ اپنی بے گناہی کے ثبوت بھی دے سکتے ہیں۔