امیر محمد خان
ہر شخص کا گریبان دوسرے کے ہاتھ میں
صاحبو ! اب تو اشرافیہ نے جن میں قانون دان، قانون کے رکھوالے ، معتبر جانے والے ادارے ،اور سیاست دان سر فہرست ہیںنے یہ طے کرلیا ہے کہ خدانخواستہ اس ملک کو جتنا نقصان پہنچاسکتے ہیں وہ پہنچاینگے ، ہر ادارے پر سوالات کھڑے ہوگئے ہیں اور یہ سوالات کھڑے کرنےوالے خیر سے اسی ادارے کے لوگ ہیں جنہیں نقصان پہنچ رہا ہے،چاہے وہ سیاست ہو یا ہمارے قانونی ادارے ،سب ہی نے ”کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں “ گزشتہ دنوںکے سروے کے مطابق ہمارا ، ہماری عدلیہ کارکردگی کا شفافیت کے معیارمیں 139 ویں نمبر پر تھی ،مگر گزشتہ کئی ہفتوںمیںشائد معیار مقرر کرنےوالے سوچ میں پڑ گئے ہونگے کہ اس اعلی کارکردگی پر کیا نمبر میںدیں جس میں معزز جج صاحبان ایک دوسرے کےخلا ف بیانات دے رہے ہیں ، قانون کی دن کی روشنی میںدھجیاں بکھیرنے والے لاڈلا سیاست دان جنہیں نہ جانے کس نے بتادیا ہے کہ اگر ایک دفعہ کسی سہارے کے اقتدار میں آجاﺅ تو پھر حکومت تادم زندگی انکی میراث ہے ، وہ 2018 ءمیں اپنے ہر مخالف کو کہا کرتے تھے کہ میں اقتدار میں آکر کسی کو نہیں چھوڑونگا، اب 2023 ءمیں فرمارہے ہیںکہ یہ مجھے نہیں چھورینگے ، کبھی بقول انکے امریکہ انکی جان لینا چاہتا ہے اور کبھی سیاسی مخالفین ، عدالت کے طلب کرنے پر عدالت نہیں جاتا کہتا ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے ، جب مرضی ہوتی ہے خود نکل پڑتا ہے ہے اور جان کا خطرہ ختم ہوجاتاہے ، عدالت آنے کا وعدہ کرتا ہے پوری ملک کو ہیجانی کیفیت کا شکار کرتا ہے ، توڑ پھوڑ ، غلیل ،پتھر ، پیٹرول بم،قانون کے رکھوالے نہتے پولیس کو اپنے کارکنوںکے ہاتھوں زخمی کراتا ہے ، عدالت جاتا
ہے ، لاڈلے کے انتظار میںجج صاحبان بیٹھے رہتے ہیں، عدالتی اوقات کار کو ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے اور جج صاحبان کہتے ہیں ”ہم بیٹھے ہیں ، آپ مقبول لیڈر ہیںآپ آجائیں“ عدالت پہنچ کر عدالتی اہلکار کو گاڑی کو باہر اسکی گاڑی میں آکر حاضری لگوانے کا مطالبہ ہوتا ہے ، جج صاحبان اپنے مقبول لیڈر کا مطالبہ تسلیم کرتے ہیں،اگر اہلکار عظیم لیڈر کی کار تک نہ پہنچ سکے تو بالاآخر جج صاحبان بغیر حاضری کے عظیم لیڈر کی ضمانتیں قبول کرلیتے ہیں۔ اس دوران پولیس کی گاڑیاںنذر آتش ہو جاتی ہیں ، لاکھوںکروڑوں کا نقصان ہوجاتا ہے ، جو کسی کو نظر نہیں آتا ہے ، ادھر پی ٹی آئی کے کارکن صدر پاکستان جو خود پی ٹی آئی کی تحریک کے دوران 2013-14 میں سڑک پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ہدایات دیتے پائے جاتے تھے کہ کس علاقے کے ٹریفک روکنا ہے ، کوئی گاڑی سڑک پر نہ آسکے ، مکمل ہڑتال کی ہدایات دے رہے ہوتے تھے، وہ بھی سرگرم ہیں کہ خوامخواہ میں انکی جماعت نے جو اسمبلیاں توڑی تھیں وہاں انتخابات کرائے جائیں بغیر اس سوال کے وہ اسمبلیاںتوڑی کیوںتھی´؟ اگر اب عام انتخاب سے قبل چند ماہ کیلئے وہاں انتخابات کیوں؟ مد مقابل بھی سیاست میںگھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا ہے انہیںمعلوم ہے اسوقت کی معاشی صورتحال میں اتحادی جماعتیں کوئی کارکردگی دکھانے کی پوزیش میں نہیںپی ٹی آئی انتخابات جیتے گی، ستمبر میں صدر صاحب کی نشست کی معیاد پوری ہورہی ہے ، اور اسمبلیوںمیں پی ٹی آئی کی موجودگی ہی اپنے کارکن کو دوبارہ صدر بنا سکے گی ۔حکومت سے آئینی طور پر بے دخل ہونے کے فوری بعد پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف میںاپنے اثر رسوخ کے ذریعے انہیںپاکستان کی جانب سے مشکوک کیا اوربھر پور رکاوٹ ڈالی کہ پاکستان کو قرضہ نہ دیا جائے ،سیاست دانوںپر جب ہمارے ملک میںانکے کرتوتوں کی جانب سے مشکل میںپڑتے ہیں،وہ بیرون دنیا میں پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا شروع کردیا جاتا ہے یہ سراسر ملک دشمنی کے زمرے میں آتاہے وہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد کس منہ سے اس ملک میں حکومت پر قابض ہونے کی کوشش کرتے ہیں، گزشتہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو افواج پاکستان پر خاص طور پر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک دنیا میںقائم سوشل میڈیا کے ذریعے منفی پراپیگنڈا کیا جارہا ہے ، یہ حکومت اور ہمارے سیکیورٹی اداروں کی کمزوری ہے کہ وہ وہ بھر پور انداز میں کوئی لائحہ عمل بناکر اسکا تدارک نہیں کرپارہے ، منفی پراپیگنڈا سے بہادر افواج کے خلاف بیرون ملک تماشہ بنتا ہے ، ہمارا ملک ایک عجیب کرائسز کا شکار ہوچلا ہے پاکستان میں بین الاقوامی مداخلت کی اپیلیں، خواہشیں اور اس بارے میں تقریریں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے بلکہ افسوسناک ہے کہ ایسا کرنے والے بالآخر پاک صاف محب وطن اور ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا بن جاتے ہیں۔ پھر ان سب کو باری باری موقع ملتا ہے کہ ملک پر حکمرانی کریں اور جو چاہے کرتے رہیں۔ تازہ واردات اپنی حکومت گرانے کا الزام امریکا پر لگانے والے عمران خان کی پارٹی پی ٹی آئی نے کی ہے۔ اس کے اسپیکر اسد قیصر نے امریکی، یورپی اور برطانوی پارلیمنٹ کو خطوط بھیجے ہیں کہ ہمارے رہنماﺅں اور کارکنوں پر تشدد ہورہا ہے۔ خط میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کا مطلب انسانی حقوق کی ایجنڈا تنظیموں کے کان کھڑے کرنا بھی ہے۔ ساتھ ہی جو الزامات لگائے گئے ہیں ان میں سے بیشتر صرف الزامات ہیں اور یکطرفہ طور پر پی ٹی آئی کے عائد کردہ ہیں۔ مثال کے طور پر قاتلانہ حملہ اس میں عمران خان کو 11 گولیاں لگنے کا دعویٰ پی ٹی آئی کا ہے۔جواب میں اتنی ہی زور دار طریقے سے اس کے خلاف بات کی جارہی ہے۔ پنجاب میں اپنی حکومت ہونے کے باوجود پی ٹی آئی نے اس کی ایف آئی آر درج کرانے میں غیر ضروری تاخیر کی۔ اسد قیصر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی کا امکان ہے۔ چند برس قبل ایم کیو ایم کے لیڈر الطاف حسین آئی ایس آئی اور پاک فوج پر برہم تھے اور بھارتی فوج اور را کو پکار رہے تھے۔ انہیں غدار قرار دے کر ان کی پارٹی کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ان کے تمام پسندیدید اور چنیدہ لوگ اہم جگہوں پر بیٹھے ہیں۔ بے نظیر بھٹو ہیلری کلنٹن سے مل کر پاکستانی فوج کی شکایات کرتی رہیں۔ نواز شریف اور آصف زرداری پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی شکایت کرتے رہے۔ پی ٹی آئی کی حمائت میں امریکہ کے سابقہ نمائندے افغانستان بھی اپنی بکواس کررہے ہیں جنہیں پاکستان کی سیاست میں دخل اندازی کا کوئی اختیار نہیں،کیوں نہ انکے پاکستان میںپابندی کااعلان کیا جائے کہ اسے پاکستان کے داخلی معاملات پر بولنے کا حق کس نے دیا ہے ؟؟ بہر حال رمضان کی بابرکت ساعتوں کی قسم کھاکر میںکہ سکتا ہے ہوں کہ عوام کو کوئی سروکار نہیںکہ دوججوںکا جھگڑا تین سے یا تین کا دو سے ، انکا مسئلہ مہنگائی ہے جسکا فائدہ حزب اختلاف اٹھاتی ہے بیرون ملک پراپیگنڈا کے حوالے اللہ پاکستا ن کے ساتھ یورپین یونین نے پاکستان کو ہائی رسک ممالک کی فہرست سے نکال دیا اور اسد عمر ، وشاہد محمود قریشی کا یورپین یونین کے سفراء سے ملاقاتیں کام نہ آسکیں