صوبائی اسمبلیاں کیوں توڑیں؟
نباض …ڈاکٹر محمد مظہر قیوم
اسمبلیاں توڑنے کے 90دن کے اندر الیکشن نہ کروانے پر آئین شکنی کا شور مچا ہوا ہے۔پی ٹی آئی عمران خان ان کے حامی میڈیا میں اور بیرون ممالک کے سفیروں اور بین الااقوامی اداروں کے سامنے اس بات کو بار بار اٹھا کر پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔اگر الیکشن کو90دن سے آگے لے جانا ہی آئین شکنی ٹھہری تو پھر سب سے پہلے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی صاحب آئین شکنی کے مرتکب ہو چکے ہیں کیونکہ 30اپریل کی تاریخ انہوں نے دی ہے اور وہ بھی 90دن سے باہر ہے میں اس بات پر حیران ہوں کہ کوئی بھی ان سے یہ نہیں پوچھ رہا کہ آپ نے اسمبلیاں کیوں توڑی ہیں۔دونوں جگہوں پر تو پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔پنجاب میں وزیراعلیٰ پرویز الہٰی اعتماد کا ووٹ لے چکے تھے اور کے پی میں تو شایددو تہائی اکثریت موجود تھی۔پرویز الٰہی تو اسمبلی توڑنا بھی نہ چاہتے تھے لیکن عمران خان کے حکم کے آگے بے بس تھے۔پی ٹی آئی کے دوستوں سے سوال کرتا ہوں کہ اسمبلیاں کیوں توڑیں تو جواب آتا آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔اگر آئین کسی عمل کی اجازت دیتا ہے توکیا اجازت کو انتشار پھیلانے یا سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے استعمال کرنا جائز ہے تین ماہ تک نگراں حکومت رہے اور تمام ترقیاتی اور عوام کے مفاد کے کام ٹھپ رہیں۔اب اگر 90دن میں الیکشن کروا دیں اور پی ٹی آئی جیت کر پھر حکومت بنا لے تو خان صاحب تو پھر بھی وزیراعظم نہ ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ وزیراعلیٰ کو حکم دیں کہ اسمبلی توڑ دو کیونکہ آئین اجازت دیتا ہے۔اس بارے ایک دوسرا نقطہ نظر بھی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ اگر اب پنجاب اور کے پی کے صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوتے ہیں تو اس کے نتیجے میں بننے والی حکومتیں 5سال تک قائم رہیں گی اور اکتوبر میں قومی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے تو ان دو صوبوں میں نگراں حکومت نہ بنے گی بلکہ یہ صوبائی حکومتیں رہیں گی اور چونکہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ ان کے ماتحت ہے تو وہ قومی اسمبلی کے انتخابات پر اثر انداز ہو سکیں گی۔کیوں نہ یہ سمجھا جائے کہ عمران خان نے یہ اسمبلیاں اسی مقصد کے لئے توڑی تھیں کہ قومی اسمبلی کے جنرل الیکشن کے وقت پنجاب اور کے پی کے صوبائی حکومتیں اس پر اثر انداز ہو سکیں۔
یہ درست ہے کہ عام تاثر ہی ہے کہ اگر اب صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ہوں تو یہ اس کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی اور حکومت 5سال قائم رہے گی۔لیکن یہ تاثر درست ہے یا نہیں اس بارے بھی دو رائے ہیں۔اسمبلی کو اصل مدت سے پہلے توڑ دینے کے بعد جو الیکشن کروائے جائیں ان کے بارے میں یہ غور کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ کہیں وہ ضمنی الیکشن تو نہیں۔ضمنی الیکشن کس کو کہتے ہیں۔ دو جنرل الیکشن کے درمیان خالی ہونے والی سیٹوں پر جو الیکشن ہوتے ہیں وہ ضمنی الیکشن کہلاتے ہیں اور ان سیٹوں پر جنرل الیکشن کے وقت دوبارہ الیکشن ہوتے ہیں اسمبلی توڑنے کی صورت میں بھی دو جنرل الیکشن کے درمیاں یہ سیٹیں خالی ہوئی ہیں اور ان پر ہونے والے الیکشن ضمنی ہی کہلائیں گے اور اس الیکشن کا ضمنی ہوناآرٹیکل 224سے بھی ثابت ہے۔آرٹیکل 224کا ٹائیٹل ہی " الیکشن اور ضمنی الیکشن کا وقت " ہے اس آرٹیکل کے تحت لکھا ہے کہ اگر اسمبلی مدت پوری ہونے پر ختم ہوئی ہے تو 60دن میں الیکشن ہوں گے اور اگر مدت ختم ہونے سے پہلے اسمبلی توڑ دی جاتی ہے تو 90دن میں الیکشن ہوں گے اب ٹائیٹل اور آرٹیکل کے متن کو اکٹھا کریں تو ظاہر ہے کہ مدت ختم ہونے پر تو جنرل الیکشن ہی ہوں گے اور وقت سے پہلے ہوتے ہیں تو ضمنی ہوں گے اور ان سیٹوں پر جنرل الیکشن کے وقت دوبارہ الیکشن ہوں گے اور صوبوں میں نگراں حکومت قائم ہو گی۔
90دن میں اگر الیکشن نہ ہوں تو کیا واقعی آئین شکنی ہو جائے گی۔ اس معاملے کوسپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔اعتماد اور عدم اعتماد کی قرار داد پر پارٹی لیڈر کی ہدایت کے خلاف ووٹ ڈالنے کا معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے آیا تھا۔آئین کے آرٹیکل 63-Aکے تحت اگر کوئی ممبر اعتماد یا عدم اعتما د کی قرار داد میں ووٹنگ کے وقت پارٹی لیڈر کی ہدایت کے خلاف ووٹ ڈالے تو پارٹی لیڈر اس کی رکنیت ختم کروا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے ایک عجیب و غریب سوال رکھا گیا کہ ایسے ممبر کا ووٹ گنا جائے گا یا نہیں۔سپریم کورٹ کا جواب بہت دلچسپ تھا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ آئین کے کسی آرٹیکل کو باقی آئین سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا بلکہ اس معاملے میں جو دوسرے آرٹیکل ہوں انکو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔اور ہر معاملہ میں ضروری ہے کہ اس آرٹیکل کا اصل مقصد جانا جائے اور اس کے مطابق آرٹیکل کی تشریح کی جائے۔63-Aمیں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا اس کو آرٹیکل 17کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے جو کہ سیاسی پارٹی کے بارے میں ہے اور اس آرٹیکل کا مقصد پارلیمانی نظام میں سیاسی پارٹی کو مضبو ط کرنا ہے اس لئے اگر کوئی ممبر پارٹی قائد کی ہدایت کے خلاف ووٹ ڈالے تو اس کا ووٹ گنا ہی نہ جائے اور اس کو نا اہل کر دیا جائے یہ دنیا میں واحد مثال ہو گی جہاں ووٹ ڈالا جائے گا لیکن گنا نہیں جائے گا اور ووٹ ڈالنے والا نا اہل ہو جائیگا یہ ہمارے سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے اور اس پر عمل درآمد بھی ہوا ہے۔
ا س فیصلے سے جو اصول سامنے آیا وہ یہ ہے کہ کسی آرٹیکل پر عملدارآمد کے لئے اس معاملے پر دوسرے آرٹیکل بھی مدنظر رہنے چاہیں اور ان کا مقصد بھی معلوم ہونا چاہیے۔
اب آتے ہیں اسمبلی ٹوٹنے اور 90دن الیکشن کے معاملے کی طرف۔یہ معاملہ آئین کے آرٹیکل 224میں درج ہے۔لکھا ہے اگر اسمبلی اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے ٹوٹ جائے تو 90دن میں الیکشن کروا دئیے جائیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ فوری طور پر ایک نگراں حکومت قائم کر دی جائے اب اس معاملے پر آئین میں اور کون سے آرٹیکل ہیں جن کو مدنظر رکھنا ضروری ہو سکتا ہے آرٹیکل 218-3میں لکھا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کا فرض ہوگا کہ وہ الیکشن کے انتظامات اس طرح کرے کہ الیکشن ایمانداری اور منصفانہ طریقے سے کروائے جا سکیں اور دھاندلی کا سد باب ہو سکے۔آرٹیکل 254کو بھی ملا لینا چاہیے جس میں درج ہے کہ اگر کوئی آئینی کام معین مدت میں نہ ہو سکے تو بعد میں ہونے پر بھی وہ INVALIDیا ناجائز نہ ہو گا بلکہ جائز طور پر کیا ہوا سمجھا جائے گا اب ان سب آرٹیکل کو ملا کر مقصد جانیں تو معلوم ہو گا اسمبلی ٹوٹ جانے کے بعد الیکشن آزادانہ اور منصفانہ ہونے چاہیں اور اس کے لئے نگراں حکومت کا قیام ضروری دیا گیا ہے تاکہ الیکشن والی کسی پارٹی کا انتظامیہ پر اثر نہ ہو۔90دن میں کروانے کا کہا گیا ہے لیکن آرٹیکل 254ضروری ہونے پر اسے آگے لے جانے کی اجازت دیتا ہے موجودہ حالات میں جب کہ آئی جی پنجاب پولیس اور ڈیفنس سیکرٹری نے ضروری اہلکار مہیا کرنے سے معذرت کر لی ہے تو مناسب سیکورٹی کے بغیر الیکشن کمیشن کے لیے ممکن نہیں کہ 30اپریل کو آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کروا سکے۔ایک اہم نقظہ یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن نے اکتوبر میں جنرل الیکشن بھی کروانے ہیں اور اس وقت پنجاب اور کے پی میں الیکشن کروا کر 5سال کے لیے حکومتیں قائم ہو گئیں تو قومی اسمبلی کے پنجاب اور کے پی حلقوں میں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کیسے ہوں گے۔ اس لیے تمام الیکشن آزادانہ اور منصفانہ کروانے کے لئے صوبائی اور قومی اسمبلی کے الیکشن اکٹھے اکتوبر میں ہوں اور اس وقت تمام صوبوں اور مرکز میں نگراں حکومت الیکشن کروائے۔