وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس لینے اور سپریم کورٹ کے بنچوں کی تشکیل کے اختیارات میں کمی کے حوالے سے وفاقی کابینہ کا منظور کردہ بل گزشتہ شام قومی اسمبلی میں پیش کر دیا اور سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے ایوان کی رائے لینے کے بعد یہ بل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کو بھجوا دیا۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد آج بروز جمعرات یہ بل منظوری کے لئے سینیٹ میں بھی پیش کئے جانے کا امکان ہے۔ وفاقی وزیر قانون نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے وہ دن بھی دیکھے ہیں جب معمولی باتوں پر سو و موٹو نوٹس لیا جاتا رہا جبکہ ماضی میں بعض ازخود نوٹس جگ ہنسائی کا باعث بھی بنے اور بعض ازخود نوٹسوں سے سپریم کورٹ کی ساکھ متاثر ہوئی۔ ان کے بقول سپریم کورٹ کے موجودہ رولز میں سو و موٹو لینے کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ اپنے رولز خود ریگولیٹ کرتی ہے۔ آئین کی دفعہ 184 تھری کے تحت سپریم کورٹ کسی مقدمے میں ازخود نوٹس لینے کی مجاز ہے تاہم اس اختیار کے استعمال سے سپریم کورٹ کے وقار کو نقصان پہنچا۔ ان کے بقول گزشتہ روز سپریم کورٹ کے دو جج صاحبان کا ازخود اختیار اور بنچوں کی تشکیل کے معاملہ میں جو موقف سامنے آیا اس نے عدالتی عملداری کے حوالے سے مزید تشویش پیدا کر دی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ عدالتی اصلاحات کے بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ ازخود نوٹس کا معاملہ کم از کم تین رکنی بنچ کو بھیجا جائے اور یہ بنچ چیف جسٹس سمیت عدالتِ عظمیٰ کے سینئر ترین ججوں پر مشتمل ہو جبکہ ازخود نوٹس کے معاملہ میں کمیٹی یہ طے کرے گی کہ معاملہ انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔
گزشتہ روز قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب کی پیش کردہ ایک قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ سیاسی معاملات میں عدلیہ کی بے جا مداخلت سیاسی عدم استحکام کا باعث بنتی ہے اس لئے عدلیہ کو سیاسی اور انتظامی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔ قرارداد میں اس امر کا بھی تقاضہ کیا گیا کہ ایسے دستوری معاملات جن میں اجتماعی دانش درکار ہو، کی سماعت عدالتِ عظمیٰ کی فل کورٹ میں کی جائے۔ وفاقی وزیر سید نوید قمر کے بقول سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے لئے یہ فیصلہ کن موڑ ہے، دونوں ادارے ایسے فیصلے کریں جو پوری قوم کو قابلِ قبول ہوں۔ بدقسمتی سے عدلیہ نے آئین پر عملدرآمد کے بجائے سیاستدانوں کی طرح کام شروع کر دیا اور سو و موٹو اختیارات کو پوری طرح سے غلط استعمال کیا گیا۔ ہمیں آئین کو بہرصورت پامال نہیں ہونے دینا چاہیے۔ انہوں نے باور کرایا کہ اداروں کے درمیان اختیارات کے حوالے سے آئین میں کوئی ابہام نہیں۔
ہماری سیاسی اور عدالتی تاریخ میں آج یہ انتہائی افسوسناک صورت حال پیدا ہوئی ہے کہ گزشتہ ایک سال سے ملک میں جاری سیاسی کشیدگی، عدم استحکام اور ایک دوسرے کے خلاف پوائنٹ سکورنگ کے لئے اختیار کی گئی بلیم گیم کی سیاست نے اہم ترین ریاستی ادارے سپریم کورٹ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور عدلیہ کے دامن کو خود اس کے اندر سے آگ لگنا شروع ہو گئی ہے۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ انصاف کی عملداری کے حوالے سے اور آئین کی محافظ و شارح کی حیثیت سے سپریم کورٹ کو بلند مقام حاصل ہے اور آئین کی دفعہ 184 کی ذیلی دفعہ تین کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملہ میں سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار دیا گیا ہے جسے سپریم کورٹ رولز کے تحت صرف چیف جسٹس سپریم کورٹ بروئے کار لا سکتے ہیں، اسی اختیار نے جوڈیشل ایکٹوازم کا راستہ نکالا جس سے ماضی میں بھی قباحتیں پیدا ہوتی رہیں اور ادارہ جاتی ٹکراﺅ کا ماحول بنتا نظر آتا رہا۔ اس حوالے سے جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس افتخار محمد چودھری اور جسٹس ثاقب نثار کے ازخود اختیارات کے استعمال سے متعلق بعض معاملات متنازعہ بھی بنے اور جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف ان کے اپنے گھر کے اندر سے بغاوت ہوئی جس کے نتیجہ میں انہیں چیف جسٹس کے منصب سے فارغ ہونا پڑا۔
بعینہ اس وقت بھی سپریم کورٹ چیف جسٹس کے ازخود اختیار کے استعمال کے معاملہ میں تقسیم ہوتی نظر آ رہی ہے جس کے لئے گزشتہ تقریباً ایک سال سے حالات ناساز گار ہونا شروع ہو گئے تھے۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی قائد عمران خان نے اپنے اپوزیشن اور اقتدار کے ادوار میں قومی سیاست کو جس طرح محاذ آرائی اور مخالفین سے ذاتی انتقال لینے والی سیاست میں تبدیل کیا اور جھوٹے سچے بیانیئے تراش کر عوام میں مقبولیت حاصل کی جس کے بل بوتے پر انہوں نے ریاستی انتظامی اداروں سمیت پورے سسٹم کو اپنی مرضی کے تابع کرنے کی کوشش کی ۔اس سے معاشرہ واضح طور پر نفرت و عقیدت کے جذبات میں تقسیم ہو گیا۔ بدقسمتی سے عدلیہ بھی اس سیاست کی لپیٹ میں آئی اور عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے بعض فیصلوں سے انصاف کا ترازو واضح طور پر پی ٹی آئی کے حق میں جھکتا نظر آیا تو ان فیصلوں سے متاثر ہونے والے سیاستدانوں کا ردعمل بھی فطری امر تھا۔ اس سیاست نے دوسرے ریاستی اداروں بالخصوص افواج پاکستان کو بھی متاثر کیا چنانچہ نفرت و عقیدت پر مبنی بلیم گیم کے اس کلچر نے آج عملاً اداروں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لاکھڑا کیا ہے جس سے اداروں کے آئینی اختیارات اور ان کی حدود و قیود سے متعلق سوالات بھی شدت کے ساتھ اٹھ رہے ہیں۔
اگر تمام ریاستی ، انتظامی ادارے اپنے اپنے دائرہ
¿ اختیار میں رہ کر اپنے فرائضِ منصبی ادا کریں جس کے لئے ہم ان سطور میں متعلقین کو متوجہ بھی کرتے رہے ہیں، تو اداروں کے مابین اختیارات کے استعمال کے حوالے سے کبھی کوئی غلط فہمی پیدا ہو نہ کسی ٹکراﺅ کی نوبت آئے۔سسٹم میں قباحتیں اس وقت ہی پیدا ہونا شروع ہوئیں جب بعض ریاستی اداروں نے آئینی تقاضوں سے ہٹ کر اپنے تئیں اختیارات حاصل اور استعمال کرنا شروع کر دئیے۔ اس کے لئے سیاستدان بھی اپنے مفادات کے لئے ان کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہے چنانچہ معاشرے میں شائستگی اور رواداری کی سیاست مفقود ہونے لگی اور بلیم گیم کی سیاست غالبا آنے لگی۔ آج کے سنگین حالات اسی تناظر میں قومی سیاست اور ادارہ جاتی نظم و ضبط کے معاملہ میں کتھارسس کے متقاضی ہوئے ہیں۔ اس کے لئے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود اختیار کا استعمال سپریم کورٹ کے اندر سے ہی اختلافی آواز اٹھانے کا باعث بنا اور عدالت عظمیٰ کے چار فاضل ججوں نے چیف جسٹس کی جانب سے اس اختیار کے استعمال کے طریق کار کی دوٹوک الفاظ میں متعلقہ کیس کی سماعت کے دوران بنچ کا حصہ ہوتے ہوئے بھی مخالفت کی اور پھر دو فاضل ججوں نے بنچ سے نکلنے کے بعد اپنے اختلافی نوٹ تحریر کر کے بھی ازخود اختیار اور بنچوں کی تشکیل کے طریق کار پر سوالات اٹھائے۔ اس تناظر میں حکومتی حلقوں کے علاوہ قانون دانوں کے حلقے بھی فاضل ججوں کے ان اختلافی نوٹس کو سات رکنی بنچ میں چار ججوں کے فیصلے سے تعبیر کر رہے ہیں اور پاکستان بار کونسل نے گزشتہ روز اپنے اعلامیہ میں باور کرایا ہے کہ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس لینے سے عدالت عظمیٰ کا اختلافی فیصلہ سامنے آیا ہے جس سے عدلیہ کا وقار کم ہوا ہے۔
عدالت عظمیٰ میں پیدا ہونے والی اس تقسیم سے ہی حکومت کو بھی عدالتی اصلاحات لا کر چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کا قانون منظور کرانے کا موقع ملا ہے جبکہ محاذ آرائی کے اس ماحول میں ریاستی انتظامی ادارے ایک دوسرے کے مدمقابل آئیں گے تو اس سے پورے سسٹم پر زد پڑنے کا اندیشہ لاحق ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ تمام قومی سیاسی اور ادارہ جاتی قیادتیں باہم مل بیٹھ کر اپنے ہاتھوں سے الجھائی گئی مسائل کی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کریں اور ایسی کوئی گھمبیر صورت حال پیدا نہ ہونے دیں جس کے نتائج پر انہیں بعد میں پچھتانا پڑے ۔ اگر ریاستی انتظامی ادارے اپنے اپنے آئینی اختیارات کے اندر ہی خود کو رکھنا قبول کر لیں تو اس سے قومی اتفاق رائے کی کوئی صورت پیدا ہو سکتی ہے اس کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز قومی ڈائیلاگ کے لئے میز سجا لیں تو اس میں کیا مضائقہ ہے۔