انتخابات اور خودمختار الیکشن کمیشن

ملک میں صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک آزاد، غیر جانبدار اور خودمختار الیکشن کمیشن نہایت اہمیت کا حامل آئینی ادارہ ہے۔ انتخابات سے متعلق امور کی نگرانی اور اس سے جڑے دیگر معاملات کے بارے میں قوانین اور آئین میں دیے گئے اختیارات کے تحت انتخابی عمل کی نگرانی اور انھیں احسن طریقہ سے آغاز سے لے کر انجام تک پہنچانا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن سے کیا مراد ہے؟ کیا پاکستان کا موجودہ الیکشن کمیشن ایک مکمل آزاد اور خود مختار ادارہ ہے؟ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے ایک کلیہ کا استعمال کرنا ضروری ہے۔ آزاد اور خودمختار ادارہ کے لیے تین اہم باتوں کا طے کرنا ہوتا ہے۔ پہلی بات غیر جانبدار چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کمیشن کا تقرر، دوسری بات ہے فیصلے کرنے کی آزادی، یعنی اندرونی یا بیرونی دباو   کی عدم موجودگی کہ کوئی فرد یا ادارہ ان کے کام میں مداخلت نہ کرے، اور تیسری و آخری مگر بہت اہم بات الیکشن کمیشن کے کیے گئے فیصلوں کا احترام، یعنی ان پر یقینی عمل درآمد۔

امریکا میں وفاقی الیکشن کمیشن (ایف ای سی) کے نام سے ایک خودمختار انتظامی ادارہ قائم ہے جس کا مقصد انتخابات کروانا ہرگز نہیں۔ یہ ادارہ صرف انتخابی قوانین پر عمل درآمد، خصوصاً انتخابی اخراجات کی دیکھ بھال اور انتخابی سرگرمیوں یعنی الیکشن مہم کی نگرانی کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ انتخابات کے انعقاد کے لیے امریکی ریاستیں ادارے بنانے میں آزاد ہیں، اور یہ ادارے جو الیکشن بورڈز کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ پچاس امریکی ریاستوں میں قائم کیے گئے یہ ادارے ریاست اور مرکز کے نمائندوں کے انتخاب کے لیے انتظامات کرنے کے پابند ہیں۔ ان الیکشن بورڈز کی خودمختاری اور آزادی کا اندازہ آپ اس بات سے لگالیں کہ گزشتہ امریکی صدارتی انتخابات میں اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ووٹوں کی گنتی کے حوالے سے کچھ ریاستوں کے الیکشن بورڈز کے ارکان پر دباو  ڈالنے کی کوشش کی مگر انھیں ٹکا سا جواب دیدیا گیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے، انھوں نے سو کے قریب شکایتیں درج کروائیں مگر کسی ایک درخواست پر بھی کسی عدالت نے انھیں کوئی ریلیف نہیں دیا۔ یہ ہے خود مختار الیکشن بورڈز کی آزادی اور طاقت کہ امریکی صدر بھی ان کے سامنے بے بس ہے۔

بھارت کے الیکشن کمیشن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے۔ حال ہی میں چند ہفتے پہلے انڈین سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی آئینی بنچ نے یہ فیصلہ دیا کہ الیکشن کمیشن کی آزادی اور خودمختاری کے لیے اشد ضروری ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر کمشنرز کا تقرر صرف وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے ایما پر نہ ہو بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی اس پینل میں شامل کیا جائے تاکہ شفاف طریقہ سے موزوں اور بہتر افراد کا تقرر کیا جائے، اب الیکشن کمیشن کے چیف الیکشن کمشنر اور دیگر ارکان کا انتخاب وزیراعظم، چیف جسٹس سپریم کورٹ، اپوزیشن لیڈر، اگر اپوزیشن لیڈر نہ ہو تو حزب اختلاف میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کا پارلیمانی لیڈر مل کر چیف الیکشن کمشنر اور دیگر کمشنرز کا تقرر کرتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر چھ سال کے لیے کیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ہمیشہ الیکشن کمیشن کے کرائے گئے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرتی ہیں۔

پاکستان میں بھی چیف الیکشن کمشنر اور دیگر چار صوبائی الیکشن کمشنرز کا انتخاب وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر مشاورت سے کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی انتظامی ادارہ ہے۔ جہاں تک اختیارات کا تعلق ہے، انتخابات کے علاوہ الیکشن کمیشن نگران وزیراعظم اور چاروں صوبوں کے نگران وزرائے اعلیٰ کا تقرر بھی کرسکتا ہے اگر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر ، اور صوبوں میں وزرائے اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈرز کے درمیان اتفاق رائے نہ ہوسکے۔ اسی طرح صوبائی انتظامی معاملات میں بھی الیکشن کے حوالہ سے الیکشن کمیشن کو وسیع تر اختیارات حاصل ہیں، حتیٰ کہ صوبائی حکومتیں سرکاری ملازمین کے تقرر اور تبادلہ کے لیے بھی الیکشن کمیشن کی پیشگی منظوری حاصل کرنے کی پابند ہیں، آئین کے تحت اور اعلیٰ عدالتوں کے متعدد فیصلوں کی روشنی میں ملک کے تمام ادارے بشمول فوج اور پولیس، الیکشن کے بروقت انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کے احکامات پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ اسی طرح ووٹرز کے ناموں کے اندراج سے لے کر کامیاب امیدواروں کے ناموں کے اعلان تک، الیکشن کمیشن کو انتظامی اور عدالتی نوعیت کے وسیع تر اختیارات حاصل ہیں۔ اسمبلیوں اور حکومتوں کے قیام کے بعد، ممبران کے استعفوں سے متعلق، صدر کے انتخابات، اسمبلی ارکان کے ٹیکس یا گوشواروں سے لے کر دیگر قانونی اور آئینی معاملات میں بھی الیکشن کمیشن کو اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔ الیکشن کمیشن بوجہ ارکان پارلیمنٹ کی رکنیت معطل اور منسوخ کرنے جیسے وسیع اختیارات بھی رکھتا ہے۔ جہاں تک الیکشن کمیشن کی آزاد اور خودمختار حیثیت کا تعلق ہے، تو اس پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہم نے الیکشن کمیشن کی آزادی اور خودمختاری ماپنے کے لیے جو کلیہ یا معیار مقرر کیا ہے اگر اس پیمانہ پر جانچا جائے تو جواب آتا ہے کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد اور خود مختار ادارہ نہیں۔ سب سے پہلا اصول غیر جانبدار چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کا تقرر ہے، حال ہی میں سابق وزیراعظم عمران خان موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ ان کا تقرر کن کے دباو  ¿ کی وجہ سے کیا گیا تھا، ان کا واضح اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف تھا۔ گویا چیف الیکشن کمشنر اور دیگر ممبران یعنی صوبائی الیکشن کمشنرز کا تقرر صاف اور شفاف طریقہ سے نہیں ہوتا۔ اب آگئی بات کہ کیا الیکشن کمیشن بغیر کسی دباو ¿ کے فیصلے کرتا ہے تو اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ پاکستان میں انتخابات کو دھاندلی زدہ قررار دیا جاتا رہا ہے۔ موجودہ حکومتی اتحاد پی ڈی ایم نے 2018ءکے انتخابات کو مسترد کردیا تھا اور عمران خان کی حکومت کو دھاندلی کی پیداوار قررار دیا تھا۔ الیکشن کمیشن پر آر ٹی ایس کے بیٹھنے جیسے سنگین الزامات لگے۔ 2013ءکے الیکشن ہارنے کے بعد عمران خان نے ضلعی ریٹرننگ افسران جو عدلیہ سے لیے گئے تھے، پرالیکشن چرانے کا الزام لگایا تھا۔ اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن اس دوسرے معیار پر بھی پورا نھیں اترتا کہ اسے کام کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ رہی بات الیکشن کمیشن کے کیے گئے فیصلوں کے احترام اور ان پر عمل درآمد کی، جو الیکشن کمیشن کی آزادی اور خود مختاری جانچنے کا تیسرا اور اہم اصول ہے، الیکشن کمیشن کے فیصلوں کی درگت بنتی تو آپ نے عام اور اعلیٰ عدالتوں میں دیکھی ہوگی۔ شاید ہی کوئی ایک آدھ فیصلہ ایسا ہو جس کے خلاف کوئی ایک فریق بھی اپیل میں نہ گیا۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...