غازی الدین بابر
پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پاک افغان کشیدگی ایک ڈیزائن کے تحت بڑھائی جا رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ اور ٹی ٹی پی سمیت بلوچ عسکری گروپوں نے اپنی کاروائیوں میں بہت اضافہ کر دیا ہے۔ پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اور اب چینی باشندوں کی ہلاکتوں نے تو ریاست پاکستان کے لئے خطرہ کی گھنٹی بجا دی ہے۔
چینی باشندوں کی ہلاکت نہ صرف پاکستان بلکہ چین کے لئے بھی ناقابل برداشت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ چینی شہریوں کی سیکیورٹی کو لیکر چین کو بہت تشویش ہے۔ عمران خان کی حکومت میں بھی چینی شہریوں کی ہلاکت کے بعد چین پاکستان سے بہت ناراض ہوا تھا۔ بلکہ چین نے پاکستان پر بھاری جرمانہ بھی کیا تھا۔ چین نے پاکستان میں جاری منصوبوں پر کام بھی روک دیا تھا۔ پی ڈی ایم کے پہلے دور میں چین کے ساتھ بہت مشکل سے تعلقات معمول پر لائے گئے تھے۔ لیکن اب پھر چینی شہریوں کی ہلاکت نے معاملات خراب کر دیے ´ ہیں۔ لیکن چینی شہریوں کی ہلاکت پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی اکیلا واقعہ نہیں ۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان میںدہشت گردی کے واقعات اور ان کے تسلسل میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
لیکن میں پاک افغان تعلقات کی بات کر رہا تھا۔ افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں۔ افغان طالبان کے ٹی ٹی پی کی طرف جھکاﺅ سے انکار بھی ممکن نہیں۔لیکن پھر بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ افغان طالبان کے بھی چین کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ بلکہ اس وقت ان کی سب سے زیادہ تجارت چین کے ساتھ ہے۔ چینی کمپنیاں افغان طالبان کی حکومت میں زیادہ کام کر رہی ہیں۔ اس لئے یہ ماننا مشکل ہے کہ چینی باشندوں کی ہلات میں افغان طالبان کا کوئی بھی ہاتھ ہوگا۔ خطہ میں چین کی موجودگی افغان طالبان اپنے حق میں سمجھتے ہیں۔ مغرب کے مقابلے میں انہیں چین ز یادہ قبول ہے۔ بلکہ روس اور امریکہ کے مقابلے میں چین انہیں زیادہ قبول ہے۔ اس لئے عام فہم بات یہی ہے کہ چینی باشندوں کی ہلاکت افغان طالبان کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔
اسی طرح پاکستان کو ایران سے بھی یہی گلہ ہے کہ وہاں بلوچ عسکری گروپ موجود ہیں۔ بلکہ جب پاک ایران کشیدگی بڑھی اور پہلے ایران اور بعد میں پاکستان نے ایران کے اندر موجود بلوچ عسکری گروپ کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔ لیکن ایران بھی چین کو نشانہ بنانے کے حق میں نہیں ہوگا۔ اگر دیکھا جائے تو ایران کے بھی مغرب سے زیادہ چین سے اچھے تعلقات ہیں۔ ایران کے لئے بھی چین کو نشانہ بنانا ٹھیک نہیں ہے۔ اس لئے پاکستان میں چینی باشندوں کو نشانہ بنانے میں ایران کا مفاد بھی نہیں ہے۔ اس لئے اگر ایران سے کوئی دہشت گروپ کام بھی کر رہے ہیں۔ ان کے پاکستان کے خلاف اہداف ہو سکتے ہیں۔ لیکن شائد ایران کو بھی یہ قابل قبول نہ ہو کہ وہ چینی پاشندوں اور چین کو نشانہ بنائیں۔
یہ درست ہے کہ بھارت کو پاکستان میں چینی سرمایہ کاری پر بہت تحفظات ہیں۔ بھارت نے مسلسل ایسے دہشت گروپوں کی حمایت کی ہے جو چین اور سی پیک کو نشانہ بناتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کو بھی پاکستان میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ اور سی پیک کے فروغ پر بہت تحفظات ہیں۔ اس لئے اشرف غنی کی حکومت میں جب پاکستان یہ الزام لگاتا تھا کہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے ساتھ بھارتی کونسل خانے کھولنے کا واحد مقصد پاکستان میں دہشت گردی کو نشانہ بنانا ہے۔ اسی لئے ان کونسل خانوں پر پاکستان کو بہت تحفظات تھے۔ پاکستان ان کو دہشت گردی کے دفاتر سمجھتا تھا۔ لیکن اشرف غنی کی حکومت کا بھارت کی طرف جھکاﺅ سب کے سامنے تھا۔ اسی لئے ایک امید یہ بھی تھی کہ جب اشرف غنی کی حکومت ختم ہوئی کہ اب بھارت اپنے مذموم مقاصد کے لئے افغانستان کی سرزمین استعمال نہیں کر سکے گا۔ لیکن شائد پاکستان کی یہ امیدیں پوری نہیں ہوئی ہیں۔
لیکن کیا ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ افغانستان اور ایران میں بیٹھے ایسے عسکری اور دہشت گروپ ان ممالک کی کی مرضی کے بغیر چین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اگر ایسا بھی ہے تو یہ ان کی اپنے ممالک میں عملداری اور رٹ کا سوال بھی ہے۔ اگر افغانستان سے بیٹھے گروپ نے چینی باشندوں کو نشانہ بنایا۔ تو یہ افغان طالبان کے لئے بھی سوالیہ نشان ہے۔ اگر ایران میں بیٹھے کسی گروپ نے ایسا کیا ہے تب یہ ایران کے لئے بھی سوالیہ نشان ہے۔
بہر حال دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد پاکستان نے افغانستان سرحد کے ساتھ پاکستان فوج کی نقل و حرکت بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلکہ ایک خبر یہ بھی ہے کہ پاک فوج نے بھارت کی سرحد سے فوج افغان سرحد کی طرف لیجانے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک ہم نے ہمیشہ بھارت کی سرحد پر ہی فوج رکھی ہے۔ اور افغان سرحد پر کبھی کوئی باقاعدہ فوج تعینات نہیں کی گئی ہے۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک پالیسی بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر بارڈر کی صورتحال میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کا منہ افغانستان میں ہے۔ اور باجود ہماری کوشش کے کابل اس سمت کوئی پیش رفت نہیں کر رہا۔ بلکہ دہشت گردوں کے ٹھکانہ ان کے علم میں ہونے کے باوجود ان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف آزادانہ آپریٹ کر رہے ہیں۔ پاک افغان بارڈر ساری دنیا کے روائتی بارڈر سے مختلف ہے۔ موجودہ حالات میں جب کابل سے تعاون میسر نہیں۔ پاکستان کو اس بارڈر پر تمام بین الاقوامی قوانین اور روایات نافذ کرنا ہوگی۔ اور دہشت گردی کی ٹریفک ختم کرنا ہوگی۔ اس طرح دونوں ممالک روائتی اچھے ہمسائیوں کی طرح اپنے تعلقات کو فروغ دے سکتے ہیں۔ پاسپورٹ اور ویزہ کے ذریعے سفر کی سہولتیں جا ری رکھی جا سکتی ہیں۔
خواجہ آصف کا یہ بیان واضح اشارہ دے رہا ہے کہ پاک افغان پالیسی میں تبدیلی کی جا رہی ہے۔ بارڈر پالیسی میں تبدیلی ہو رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کابل کا کیا رد عمل ہے۔ کیا کابل اپنی پالیسی مین کوئی تبدیلی کرے گا۔ اگر پاکستان افغان بارڈر کو سیل کر دیتا ہے تو اس پر کابل کا کیا رد عمل ہوگا۔ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ کابل کا پاکستان پر معاشی انحصار ہے۔ پاکستانی سرحد سے افغان طالبان کا بہت معاشی انحصار ہے۔ روزانہ ہزاروں افغان معاشی سرگرمیوں کے لئے پاکستان کی سرحد پار کرتے ہیں۔ کیا ہم افغان سرحد کو بھارت کی سرحد کی طرح سیل کر سکتے ہیں۔کیا وہاں نقل و حرکت بھارت کی سرحد کی طرح ختم کی جا سکتی ہے۔ پاکستان نے افغان سرحد کے ساتھ باڑ لگائی ہے۔ لیکن باڑ لگاتے وقت یہی امید تھی کہ اس کے بعد دہشت گردی ختم ہوگی۔ لیکن اگر باڑ کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو دہشت گردی میں کوئی خاص کمی نہیں ہوئی ہے۔ اس لئے باڑ کی افادیت پر بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔ اب کیا فوج لگانے سے مطلوبہ مقاصد حاصل ہو جائیں گے۔ کیا حالات ٹھیک ہونے کی بجائے خراب ہو جائیں گے۔کیا کشیدگی بڑھے گی۔ کیا پاک افغان جنگ کا کوئی امکان ہے۔ کابل کے پاس کیا آپشن ہیں۔ بھارت اس سے کیسے فائدہ اٹھائے گا۔ سب سوال موجود ہیں۔ اور دہشت گردی بھی موجود ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بھی نہیں بیٹھا جا سکتا۔ اس لئے یہ وقت فیصلہ کرنے کا ہے۔ کیونکہ اس دہشت گردی کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔