زاویے.... میاں محمود
Myan.Mehmood @gmail.com
20 مارچ کو اسلام آباد میں معاشی معاہدے کے بعد وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور آئی ایم ایف ٹیم کی سبراہ لیتھن پوٹر سے مصافحہ کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کررہے تھے۔ یہ معاہدہ پاکستان کی معاشی واقتصادی ضرورتوں کے لیے ناگزیر تھا ،مقام شکر ہے کہ معاملات توقعات اور سنجیدہ کوششوں کے مطابق طے ہوگیا۔ آئی ایم ایف جائزہ ٹیم 14 مارچ سے یہاں موجود تھی 19 مارچ کی شام تک مختلف سطح کی ملاقاتوں میں شرائط وضوابط کو آخری شکل دی گئی۔ اگلے روز اسٹینڈ بائی اریجنمٹ معاہدہ خیالات وخواہشات سے نکل کر حقیقت بن گیا۔ پاکستان کو ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی تیسری قسط موصول ہو جائے گی جس سے تین ارب ڈالر کا قلیل مدتی قرض پروگرام مکمل ہو جائے گا،۔ لیتھن پوٹر کا کہنا تھا کہ آخری قسط کے بعد پاکستان کی معاشی ترقی مزید بہتر ہو جائے گی۔ نئی پیش رفت کے نتیجے میں پاکستان کے لیے قرض کی آخری قسط کی مد میں ایک ارب 10 کروڑ ڈالر جاری ہونے کی راہ ہموار ہوگئی۔ پاکستان کو 2 اقساط کی مد میں آئی ایم ایف سے ایک ارب 90 کروڑ ڈالرز مل چکے ہیں۔ آخری قسط کے بعد پاکستان کو موصول شدہ رقم بڑھ کر3 ارب ڈالرز ہو جائے گی, قسط ملنے کے ساتھ ہی3 ارب ڈالرکا قلیل مدتی قرض پروگرام مکمل ہوجائے گا۔ اعلامیے میں آئی ایم ایف نے باقی مالی سال معاشی بحالی کے لیے اقدامات جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔ ترجمان آئی ایم ایف کا کہنا تھاکہ پاکستان کی معاشی حالت بہتر ہوئی ہے، معاشی اعتماد بحال ہو رہا ہے، پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے فنانسنگ مل رہی ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ حکومت کو معاشی بحالی کے لیے اصلاحات جاری رکھنی چاہیے۔ اعلامیے میں بتایا گیا کہ حکومتِ پاکستان نے بجلی اور گیس ٹیرف کی بروقت ایڈجسٹمنٹ اور رواں مالی سال گردشی قرضے میں اضافہ روکنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ نومنتخب حکومت نے ٹیکس نیٹ (ٹیکس دہندگان کی تعداد) بڑھانے اور مہنگائی کم کرنے کے کے لیے اقدامات اٹھانے کی بھی یقین دہانی کروائی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو ایکسچینج ریٹ مستحکم رکھنے اور فاریکس مارکیٹ میں شفافیت لانے کے لیے اقدامات کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔ اعلامیہ میں آئی ایم ایف نے امید ظاہر کی ہے کہ نئی منتخب حکومت معاشی اہداف پر کاربند کرے گی، توقع ہے کہ پرائمری بیلنس 401 ارب روپے تک رہے گا اور پرائمری بیلنس معیشت کا 0.4 فیصد رہے گا۔بیان میں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ سٹیٹ بینک اور نگران حکومت نے پروگرام پر موثر عمل درآمد کیا، پاکستان کی نئی حکومت نے بھی جاری پالیسی پر عمل، اصلاحات کی کوششوں کے بارے میں اپنا عزم ظاہر کیا تاکہ پاکستان کو استحکام سے پائیدار بحالی کے راستے پر لے جایا جا سکے۔ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے ساتھ پہلے ریویو کے بعد سے اب تک پاکستان کی معاشی اور مالی پوزیشن میں کافی بہتری آئی۔ اس سال گروتھ مناسب رہے گی، جبکہ افراط زر ہدف سے آگے بڑھ جائے گا۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان افراط زر کو کم کرنے کے لیے متحرک مالیاتی پالیسی پر عمل درآمد کو جاری رکھے گا۔ زر مبادلہ کی مارکیٹ شرح میں لچک رکھی جائے گی۔ زر مبادلہ کی مارکیٹ کے آپریشنز میں شفافیت برقرار رکھی جائے گی۔ جائزہ مذاکرات کے دوران وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے تقریباً 36 سے 39 ماہ کے ایک اور قرض کے پروگرام کے لیے بھی پاکستان کا منصوبہ آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیا ، جس کے لیے مقررہ وقت پر باضابطہ درخواست کی جائے گی۔ پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت پر پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی موجودہ شرح (60 روپے فی لیٹر) بڑھانے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ دوسری جانب بلوم برگ کے مطابق پاکستان گزشتہ برس ڈیفالٹ کے خطرے سے بچنے میں کامیاب رہا جبکہ عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے کے بعد پاکستان کے ڈالر بانڈ کی قدر مارچ 2022 ءکے بعد بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا زیادہ تر انحصار آئی ایم ایف پر ہے۔ پاکستان نے معاشی بہتری کیلئے نیا قرض پروگرام لینے میں دلچسپی ظاہر کردی۔ سرمایہ کاروں کی توجہ اب نئے قرض پروگرام کیلئے مذاکرات پر ہوگی۔ بلوم برگ کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی بیرونی ضروریات 24 ارب ڈالر ہیں۔ ایکسٹرنل فنانسنگ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائرسے تین گنا زیادہ ہیں۔ پاکستان آئی ایم ایف سے کم ازکم 6 ارب ڈالر کا قرض پروگرام لے سکتا ہے۔
اس سے قبل مشاورتی اور سٹاف لیونگ اجلاسوں میں آئی ایم ایف نے پاکستان کی اصلاحات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ مہمان ٹیم کے اراکین نے کئی بار بہتر معاشی پالیسیوں کو درست سمت میں درست قدم سے تعبیر کیا، بلاشبہ آئی ایم ایف سٹاف لیول معاہدہ کا کریڈیٹ پاکستانی بہترین معاشی کو جاتا ہے جس کی قیادت وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کررہے تھے۔وزارت کا اٹھانے کے روز سے معاہدے کی شام تک وزیر خزانہ اور ان کی معاشی ٹیم مصروف عمل رہی۔ خدا کا شکر ہے کہ ان کی تعمیری کوششیں رنگ لے آئیں۔ماہرین معیشت اور اقتصادی شعبوں سے جڑی شخصیات اس بڑی کامیابی پر وفاقی وزیر خزانہ اورنگزیب‘ وفاقی وزیر تجارت جام کمال‘ سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال ‘ گورنر اسٹیٹ بنک جمیل احمد ،وفاقی وزیر تجارت رانا تنویر اور ٹیم ممبران کو مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ معاہدے کے روز وفاقی وزیر خزانہ کی چینی سفیر سے ملاقات بھی ہوئی۔ اس اہم ترین ملاقات کا موضوع ( اورایجنڈا) معاشی واقتصادی صورت حال اور آئی ایم ایف پروگرام بھی رہا۔ پاکستانی قیادت نے اس بات کا بھی اشارہ دیا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ ہمارا آخری قرض پروگرا م ہو‘ قوم دعاگو ہے کہ اللہ پاک وہ دن ضرور دکھائے جب ہم قرض پروگرام سے علیحدہ (یعنی دور ) ہو جائیں ۔ہم ان ہی سطور میں کہتے رہے ہیں کہ پاکستان پر اندرون وبیرون قرضوں اس کی برداشت سے بہت زیادہ ہے اور تنہا حکومت قرضوں کے بوجھ سے خود کو نکال نہیں سکتی‘ اس کے لیے پرائیویٹ سیکٹر کو شریک سفر کرنا ،اس کا اعتماد بحال کرنا اور اس کی عزت میں اضافہ ضروری ہے۔ عزت اور اعتماد بحال کرنا اور تاجروں کی عزت کے بغیر ہونے والی تمام کوششیں سراب ثابت ہوں گی۔ امید ہے وزیر خزانہ کی قیادت میں ان کی معاشی ٹیم پبلک پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک کی شمع ہر سطح پر روشن کرے گی۔وطن عزیز میں سرمایہ کار اور صنعت وتجارت سے وابستہ شخصیات یہاں تک کے تجزیہ نگار تجاویز دیتے رہے کہ حکومت مائیکرو مینجمنٹ کی ضد چھو کر اسٹیک ہولڈز کی مشاورت سے ایسی پالیسیاں مرتب کرے جس سے معیشت اور خزانے پر مثبت اثرات مرتب ہوں ۔ان ہی پایسیوں سے صنعتی پہیہ چلے گا‘ سرمایہ کاری ہوگی جس سے معیشت پھیلتی پھولتی نظر آئے گی ۔وقت آگیا کہ معاشی ماہرین سرجوڑ کر بیٹھیں تاکہ قومی آمدن بڑھانے کے نئے نئے انداز متعارف ہوںٹیکس وصولی کا نظام شفاف بنانے کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے جس کے لیے حکومتی ٹیم کو کھلے دل سے میدان عمل میں آنا پڑے گا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کا مقصد دستاویزی نظام ہے جس کے لیے براہ راست ٹیکس نظام پر زور دیا جارہا ہے۔ محبان معیشت کہتے ہیں کہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرکے اس میں تمام چھوٹے بڑے دکانداروں‘ بزنس یونٹس یہاں تک ریڑھی شاپ کو بھی ساتھ ملائیں‘ یہ لوگ محب وطن ہیں جن کو اعتماد اور عزت دے کر فکس شرح پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ وزارت خزانہ اگر یہ کارنامہ انجام دے گئی تو پاکستان کی قسمت سنور جائے گی ۔معاشی تجزیہ نگار محمد اورنگزیب سے درست مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ وزارت خزانہ کی ایسی معاون ٹیم تشکیل دیں جو قومی ترقی ،اقتصادی خوشحالی اور اکنامک اہداف میں ان کی مدد کرے، یہ کام مشکل ضرور ہے نا ممکن نہیں!