اب تو وہ باپ بھی خاک و خون کا رزق بن چکا ہو گا لیکن یہ تب کی بات ہے جب چند دن پہلے وہ اپنے معصوم بیٹے کی خواہش پر بسکٹ لایا تو بچہ اسے خدا حافظ کہہ چکا تھا ۔ تب اس نے نام نہاد جمہوریت کے علم برداروں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو لیڈ کرنے والوں کو آنسوﺅں کی زبان میں متوجہ کیا تھا۔۔ یہ کہہ کر کہ میں نے بیٹے کے ہاتھ میں بسکٹ تھما دیا ہے کہ جنت میں اس کی آنکھ کھلے تو اسے پت چل جائے کہ اس کا باپ تو اس کے لئے بسکٹ لے آیا تھا مگر۔۔۔۔۔میں نے بھی کوسو ں دور بیٹھے یہ منظر دیکھا تھا ۔ مجھے لگا کہ کفن میں لپٹا یہ ننھا۔۔ یہ بچہ۔۔۔ لگتا ہے اب بھی سانس لے رہا ہے۔۔ اس کے ہاتھ میں اک ٹوٹا پھوٹا بسکٹ ہے۔۔ شائد ابھی وہ یہ بسکٹ دیکھ کر خوشی سے چلائے گا ۔۔ ساتھیو۔۔۔ دیکھو مرے پپاس کیا ہے۔۔۔ لیکن وہ بچہ ابھی ساکت ہے اس کے گال اورماتھے کی جلد پر بہتا خون اب جم گیا ہے۔۔ اس کے ہونٹوں پر پپڑی جمی ہے۔۔۔ اس کی آنکھیں پتھر کی مانند بے جان ہیں ۔۔ لیکن اس کے ہاتھ میں مضبوطی سے تھاما بسکٹ ۔۔ ابھی نیچے نہیں گرا ہے۔۔۔ابھی ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوا ہے۔۔۔۔۔ کہ شائد کسی پتھر کے نیچے موجود اس کی خوفزدہ ننھی بہن کو بھوک لگی ہو۔۔۔ اور وہ اپنے بھیا کی راہ تکتی ہو۔۔ کہ وہ کہیں سے بھاگتا ہوا آئے گا ۔۔ اس بسکٹ کے دوٹکڑے کرے گا اور بڑا ٹکڑا اپنی ننھی بہن کو کھلا دے گا۔۔۔