سردار نامہ .... وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
ہماری ماضی کی غلطیاں اتنی زیادہ ہیں اور اتنی بھیانک اور گھمبیر ہیں کہ ان۔ ایک مرتبہ پھر دوہرائے جانا کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہے ،مثال کے طور پر ہمارے ملک میں مارشل لا ءکی حکومتوں کے ادوار گزرے ہیں اور آج بھی ایک طبقے کی کی جانب سے ان ادوار کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں ،لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مارشل لا ءادوار میں چاہے یہ ایوب خان کا دور ہو ،چاہے ،یحیٰ خان کا دور ہو ،چاہے ضیا الحق کا دور ہو یا پھر پرویز مشرف کا دور گزرا ہو ،ہر دور آمریت میں غلط پالیسیاں بنیں ،غلط فیصلے بھی ہوئے غلط روش کو عام کیا گیا جس نے کہ ملک اور قوم کو بہت نقصان پہنچایا ،افغانستان کے فیصلے کو ہی لے لیجیے ،اگر افغانستان میں انقلاب آیا ہوا تھا ،سر خ تھا یا سبز تھا ،ہمیں اس سے کیا سروکار تھا کہ ہم افغانیوں کی سلامتی اور بقا کو اپنی ذمہ داری بناتے ہو ئے ،افغانستان کے اندرونی معاملات میں بھی مداخلت کریں اور اپنے لیے اپنے مسائل میں بہت زیادہ اضافہ کر لیں ۔اور اس غلط پالیسی اور اندرونی مداخلت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج تک ہمیں دہشت گردی کا سامنا ہے اور آج بھی ہم اپنے جوانوں کو شہید ہو تا ہوا دیکھ رہے ہیں ۔پاکستان کے ماضی حالات ایک تاریک تصورپیش کرتے ہیں لیکن اب ضرورت ا س بات کی ہے کہ ماضی کی کو تاہیوں کو پھر سے نہ دوہرایا جائے اور آگے بڑھنے اور ملک کی قسمت بدلنے کے لیے انقلابی فیصلے کیے جائیں ۔پاکستان ایک نہایت ہی مشکل صورتحال سے دوچار ہے اور ملک کو اندرونی اور بیرونی محاذ پر شدید نوعیت کے چیلنجز درپیش ہیں اور حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان منفرد حالات سے نکلنے کے لیے منفرد فیصلے کیے جائیں ۔اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے اور ہمیں اس طرف بڑھنے کی ضرورت ہے ۔اس طرح ہماری بہت ساری کو تا ہیاں ہیں جو کہ ہم نے نظر انداز کی ہیں اور اس کے غلط نتائج نکلے ہیں اور یہ کو تا ہیاں ہیں کہ
ہم نے ایران کے ساتھ بھی کبھی ایسے تعلقات استوار نہیں کیے جن کی ہمیں بطور ہمسایہ ضرورت تھی پاکستان کو آگے برھنے کی ضرورت تھی اور پاکستان کو ایران سے ایسے فوائد مل سکتے تھے جن سے پاکستان کی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے تھے لیکن ایسا ہو نہیں سکا ہے ۔پاکستان ایران سے توانا ئی حاصل کر سکتا تھا اور ابھی بھی کر سکتا ہے اور یہ سستی توانا ئی پاکستان کی صنعتی اور معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرسکتی تھی ۔سوال تو اٹھتا ہے کہ ہم نے آج تک ایران سے ایسے تجارتی اور معاشی تعلقات کیوں استوار نہیں کیے جس سے کہ ہمیں کوئی فائدہ ہو سکتا ہو ۔یہ اہم سوال ہے اور ہمیں اس حوالے سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ہمسایوں کے ساتھ اس سطح کے تعلقات کیوں نہیں رکھے گئے کہ ہمیں معاشی آسودگی اور سکون بھی حاصل ہو سکتا ۔کیونکہ خطے کی تجارت ہی ملکوں کو اٹھاتی ہے اور آگے لے کر چلتی ہے ۔اگر ہم نے ایران سے توانا ئی کا حصول کیا ہو تا تو آج ہم اس کیفیت میں نہ ہوتے جس کا شکار ہم آج ہو چکے ہیں ۔پاکستان ایک بڑا ملک ہے اور مستحکم معیشت پاکستان کی ضرورت ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج تک۔ وہ اقدام نہیں اٹھا سکے ۔وہ کام نہیں کرسکے جن کی کہ ضرورت تھی ۔لیکن اب ہمیں تیزی کے ساتھ ان اقدامات کی جانب بڑھنا ہو گا، یہ وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان مزید ترقی کی اس دوڑ میں مزید پیچھے نہیں رہ سکتا ہے ۔یہ تمام غلطیاں جن کا زکر کیا گیا ہے یہ مارشل لا ءادوار میں ہو ئی ہیں ،اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سولین ادوار میں غلطیاں نہیں ہو ئی ہیں ،مجھے یقین ہے کہ اگر بھٹو زندہ ہو تے اور 77ءکے بعد ان کی حکومت جاری رہتی تو وہ یقینا اپنی اقتصادی پالیسی پر یقینا نظر ثانی کرتے ،صنعتوں کی نیشنلائزیشن کی پالیسی درست نہیں تھی بلکہ کہنا چاہیے کہ کسی بھی صورت میں درست نہیں تھی یہ اس دور کے سوشلسٹ پرا ڈائم میں تھی لیکن جو معاشرہ اوپر سے نیچے تک کرپشن کا شکار ہو وہ معاشرہ کسی بھی صورت میں سوشلسٹ پالیسی کو کامیابی سے نہیں اپنا سکتا ہے اور یہ قومیانے کی پالیسی کاروبار اور سرمایہ کار کے لیے بہتر ثابت نہیں ہو ئی ۔غلطیاں تو میں سمجھتا ہوں کہ بے شمار ہیں ،لیکن اب ساری غلطیوں کے بوجھ تلے جو عوام ہیں، جو شہدا ہیں، وہ کس سے حساب مانگیں ؟یہ اہم سوال ہے جو کہ کیا جانا چاہیے ۔حال میں کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے لیکن جب تک ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر غلطیوں کا ادراک نہیں کریں گے تب تک ہمارے مستقبل کے لیے بھی کو ئی امید نظر نہیں آئے گی ۔ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس جانب بڑھا جائے اور غلطیاں سدھارنے کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔ہمارے سامنے ہندوستان کی مثال موجود ہے جہاں پر غربت آج بھی بہت زیادہ ہے لیکن ان کی صنعتی پالیسی کی بدولت ان کا صنعتی شعبہ نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے ،اور ہندوستان کی دولت میں اضافہ کررہا ہے ،روزانہ اخبا رات میں ہندوستان کے دولت مندوں کی فہرست شائع ہو تی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنے کاروباری حضرات کو اور صنعت کاروں کو وہ مقام نہیں دے سکے ہیں جو کہ ملنا چاہیے ۔اور ہندوستان میں یہ مقام دیا بھی گیا ہے ۔ہمیں بھی اس طرف بڑھنے کی ضرورت ہے قومی دولت بڑھے گی تو ہی ملک ترقی کرے گا ۔اسی طرح تعلیم کے مسئلہ میں بھی ہم بہت پیچھے ہیں اور پتہ نہیں کہ یہاں پر کس قسم کے امتحان ہو تے ہیں ،کیونکہ جو پراڈاکٹ مارکیٹ میں آرہا ہے وہ معیاری نہیں ہے ،جب تک ملک میں تعلیمی نظام یکساں نہیں ہو تا ہے تب تک ہم ایک قوم نہیں بن سکتے ہیں ۔ہم نے اے لیول اور او لیول کو نافذ کیا ہے لیکن اپنا نظام نہیں لاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم پیچھے ہیں اور جب تک ایک پاکستانی نظام نہیں ہو گا تب تک ایک پاکستانی سوچ پیدا نہیں ہوگی ۔پاکستان بن گیا اور یہ اب ہمارا ملک ہے اور اس کی بہتری کے لیے ہمیں کام کرنا چاہیے ،اس ملک کو مزید ٹوٹ پھوٹ سے بچائیں اور بہتر راستے پر لے کر چلیں یہ ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کا سوا ل ہے ۔