سب سے بڑا دھرم ”انسانیت“ہے

آجکل گھروں میں ملازم رکھنے کا ایک ٹرینڈ ہی چل پڑا ہے چاہے تنخواہ کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو دکھاوے کی غرض سے ملازم رکھنا پاکستانیوں کی مجبوری بن چکا ہے۔ ملازمین سے فائدہ اٹھانا اور بدلے میں ان کو بنیادی انسانی حقوق دینا ایک بھاری ذمہ داری ہے بالخصوص اگر وہ غیر مسلم ہوں تو یہ ذمہ داری اور بھی بڑھے گی کیونکہ اسلام نے غیر مسلموں سے بھی حسن معاشرت کی تعلیم دی ہے۔ غیر مسلم خواہ مہمان، ہمسایہ یا مسلم ریاست کا ایک شہری ہی کیوں نہ ہو ہر صورت میں اس سے حسن سلوک کا حکم دیا اور اس کی جان، مال اور عزت و آبرو کا تحفظ حکومت اور مسلم معاشرے کی پاسبانی قرار دیا ہے۔ یہ سوسائٹی کی ایسی ذمہ داری ہے جس سے ہم راہ فرار حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ روز محشر ان سے متعلق بڑے سخت سوالات ہونگے۔ 
قارئین! تہذیب اسلامی ایک جاندار تہذیب ہے تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت ایکسپوز ہوگی کہ باقی تہذیبوں کے اصول و قواعد مسلم تہذیب سے ہی مستعار لیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر یورپ میں مقبول "عمر لاز " ہی دیکھ لیجئے۔ گورے عمل پیرا ہو کر کس قدر فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہم اپنی ہی اقدار سے انجان بنے بیٹھے ہیں۔ قارئین وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرتا اور اخلاقی گراوٹ کی دلدل میں بھی دھنستا چلا جاتا ہے کہ جہاں حقوق و فرائض کی آگاہی نہیں ہوتی۔
ایک بہت ہی اہم اخلاقی پوائنٹ جس کو ہم نے فراموش کر دیا ہے وہ یہ کہ غیر مسلم ملازمین کے ساتھ کس قسم کا برتاو¿ روا رکھا جائے۔ ؟؟؟
 مملکت خداداد پاکستان میں اکثریت چونکہ مسلم ہے اس لئے ملازمین رکھتے وقت یہ خیال نہیں ہوتا کہ ان کا تعلق کسی دوسرے مذہب سے بھی ہو سکتا ہے۔ اب مالک کی آزمائش یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ان کے قول و فعل سے غیر مسلم ملازم کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ وہ روزی کے ہاتھوں اپنے مذہب کے بارے میں دلائل بھی نہیں دے سکتا۔ یہاں پر رواداری کے اصول لاگو ہوتے ہیں۔ اگر مالک کو معلوم ہو جائے کہ یہ غیر مسلم ہے اس پر اس کے مذہبی نظام میں تبدیلی کے لیے اسے ہرگز مجبور نہ کیا جائے۔نہ ہی اسے عیسائی ، پارسی ، یہودی یا ہندو پکار کر اس کا تمسخر اڑائے۔ یاد رہے کہ سب سے پہلے انسانیت آتی ہے بعد ازاں مذاہبِ عالم۔۔۔ اسلام کا نقطہ نظر ہے کہ ہر انسان بحیثیت انسان معزز ومکرم ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی دین اورکسی بھی رنگ ونسل سے ہو۔ اس لیے ایسی کوئی بات نہ کی جائے جو ان کے لیے چبھن کا سبب بنے۔ یہ بھی نہ ہو کہ بھری محفل میں ان کو الگ تھلگ رکھا جائے۔ صحیحین کی حدیث میں واضح احکام ہیں " جو غلام تمہارے ماتحت ہیں سو جو تم خود کھاتے ہو ا±نہیں بھی وہی کھلاو¿ اور جو خود پہنتے ہو ا±نہیں بھی وہی پہناو¿۔ ا±نہیں ا±ن کی طاقت سے بڑھ کر کسی کام کا مکلف نہ ٹھہرایا جائے" یعنی ایسا کوئی کام ا±ن کے ذمہ لگائیں تو ا±س کام میں خود بھی ا±ن کی مدد کریں مثلاً وہ کسی بوجھ کو اٹھا رہا ہے اور اس کے اٹھانے میں مشقت ہو رہی ہے تو تھوڑا ہاتھ خو بھی لگادینے سے آپ کا شملہ نیچا نہیں ہوگا بلکہ ملازمین کی نظر میں آپ کی توقیر بڑھے گی۔ جگر مراد آبادی نے اس منظر نامہ کی کیا خوبصورت تصویر کشی کی ہے کہ 
آدمی کے پاس سب کچھ ہے مگر 
ایک تنہا آدمیت ہی نہیں
آئے روز ایسی ویڈیوز وائرل ہوتی ہیں جن میں ملازمین پر تشدد سامنے آتا ہے جو کہ سراسر جرم ہے۔ اس سے حد درجہ اجتناب ضروری ہے۔ ہماری صورت حال یہ ہے کہ جب خادموں سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو عفو ودرگزر تو دور رہا ہم اسے طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں زدوکوب کرتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد اسی سے خدمت لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہم اسے ماریں بھی پھر اس سے خدمت کے بھی خواہاں ہوں۔
ان سے کوئی لغزش سرزد ہوجائے تو واقعی غلطی پر انہیں تنبیہہ کی جاسکتی ہے، لیکن اس کا انداز یوں ہو کہ اس کی اصلاح بھی ہوجائے اور اسے تکلیف بھی نہ ہو، چہرے یا نازک جگہوں پر نہ مارا جائے۔
 غیر مسلمین کے تہواروں پر انہیں رعایت دی جائے فرعون نہ بنا جائے۔ جس طرح ہم اپنے تہواروں کے لیے حساس ہوتے ہیں وہ بھی اس طرح کا جذبہ اپنے مذہب کے لیے رکھتے ہیں۔ اہم بات کہ ایسے موقعوں پر ان کی تنخواہ پہلے ہی دے دی جائے ، ٹال مٹول سے گریز کیا جائے تاکہ وہ اہل و عیال کی خوشیوں کا بندوبست کر سکیں۔ ہو سکے تو تالیف قلب یا معاشرتی حسن کے لیے بونس کا بھی بندوبست کر دیں۔ایسا نہ ہو کہ ان ایام میں ان کو نہ صرف چھٹی سے محروم کیا جائے بلکہ ان کی ڈیوٹی کے اوقات کار کو بھی بڑھا دیا جائے۔
آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو 
اک توجہ چاہئے انساں کو انساں کی طرف
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن