پاکستان کی عدالتی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں نے چیف جسٹس پاکستان اور چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل قاضی فائز عیسیٰ کے نام ایک خط لکھا اور ایگزیکٹو اور خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے عدالتی امور میں سنگین اور تشویشناک مداخلت کے حوالے سے رہنمائی طلب کی ہے۔ خط لکھنے والے ججوں میں جسٹس محسن اختر کیانی جسٹس بابر ستار جسٹس طارق محمود جہانگیری جسٹس ثمن رفعت امتیاز جسٹس اعجاز اسحاق خان جسٹس ارباب محمد طاہر شامل ہیں۔ خط لکھنے والے جج دو بار چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق سے ایجنسیوں کی مداخلت کے سلسلے میں شکایت کر چکے ہیں۔ مداخلت کا سلسلہ جاری رہا اور عدالتی ضابطہ اخلاق میں اس مسئلے کا کوئی تدارک موجود نہیں ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل عدلیہ کا آئینی مانیٹرنگ اور ریگو لیٹری ادارہ ہے- یہ آئینی ادارہ اگرچہ ججوں کے علاو¿ہ کسی سرکاری ملازم کا احتساب نہیں کر سکتا البتہ یہ آئینی ادارہ مشاورت کرکے عدلیہ کی آزادی کے لیے سفارشات مرتب کر سکتا ہے۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ دوسروں کو انصاف فراہم کرنے والے فاضل جج خط لکھ کر اپنے لیے انصاف مانگ رہے ہیں- اس خط میں بیان کیا گیا ہےکہ جب عمران خان کے خلاف ان کی مبینہ بیٹی ٹیریان کی پٹیشن اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں نے چیف جسٹس عامر فاروق کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عمران خان کے خلاف یہ کیس قابل سماعت نہیں ہے۔ اس اختلاف رائے کے بعد ججوں کے خاندانوں اور دوستوں کے ذریعے دباو¿ ڈالا گیا ۔ ایک جج کے بہنوئی کو اغوا کرکے اسے الیکٹرک شاٹ لگائے گئے اور ویڈیو میسج ریکارڈ کیا گیا۔ ایک جج کو تناو¿ اور ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ ایک جج کے بیڈ روم میں ویڈیو کیمرے نصب کیے گئے۔خط کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کے علاو¿ہ لوئر کورٹس میں بھی مداخلت کا عمل جاری ہے۔ ایک ایڈیشنل سیشن جج کے گھر پر دستی بم پھینکا گیا۔ خط میں جسٹس شوکت صدیقی کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جنہوں نے خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کا الزام لگایا تھا۔ خط میں جوڈیشل کنوینشن بلانے کی تجویز پیش کی گئی ہے تاکہ اس اہم مسئلہ پر مشاورت کی جا سکے۔ خط میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا ایگزیکٹو اور خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت ریاستی پالیسی کا حصہ ہے۔
ریاستی اور حکومتی اداروں میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کا سلسلہ بہت پرانا ہے تاہم اس مداخلت کے بارے میں موثر اور توانا احتجاج پہلی بار منظر عام پر آ یا ہے۔ ایک مستند رپورٹ کے مطابق جنرل ایوب خان نے ایک سرکاری فنکشن میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ رستم کیانی سے کہا کہ اگر حکومت ان کے فیصلے تسلیم نہ کرے تو وہ کیا کر لیں گے۔ جسٹس رستم کیانی نے کہا مسٹر پریزیڈنٹ ہائی کورٹ کے تمام برادر ججز مستعفی ہو جائیں گے اور آپ دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ خفیہ ایجنسیاں سیاست دانوں کی تقسیم اور کمزوری سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔
اگر سیاست دان اور جج خود اپنے حلف کی پاسداری اور آئین و قانون کی پابندی کرنے لگیں تو مداخلت ختم ہو سکتی ہے۔ سپریم کورٹ بار اسلام آباد اور سندھ، لاہور، پشاور اور بلوچستان کی ہائی کورٹس بار نے چھ ججوں کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے عدلیہ میں مداخلت کی مذمت کی ہے اگر اس اہم اور حساس نوعیت کے مسئلے کا جلد حل تلاش نہ کیا گیا تو رمضان کے بعد آل پاکستان وکلاءکنونشن بلانے کے امکانات موجود ہیں۔ پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ اجلاس بلا کر چھ ججوں کے خط پر مشاورت کی جو قابل ستائش اقدام ہے۔ اگر پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں پر عوام کا اعتماد متزلزل ہو جائے تو ایجنسیوں کی پروفیشنل صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی آزادی سلامتی اور دفاع کے لیے عوام اور پاک فوج کا اتحاد اعتماد اور اعتبار لازمی شرط ہے۔ آرمی چیف کو چھ ججوں کے خط کا نوٹس لیتے ہوئے محکمانہ انکوائری کا فیصلہ کرنا چاہیے اگر ایجنسیوں کے اہل کار غیر آئینی غیر قانونی کارروائیوں میں ملوث پائے جائیں تو ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے مطابق اقدام کیا جائے تاکہ پاک فوج اور ایجنسیوں کے وقار کا تحفظ کیا جا سکے-
پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کی اور 6 ججز کے خط کے بارے تبادلہ خیال کیا۔ اس ملاقات میں چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم کو باور کرایا کہ عدلیہ کی آزادی میں ایگزیکٹو کی جانب سے کسی قسم کی مداخلت قبول نہیں کی جائے گی۔ اس ملاقات کے بعد سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق وفاقی حکومت نے انکوائری کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جو 6 ججز کی شکایات کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ پیش کرے گا جس کے بعد اگلے مناسب اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ وفاقی حکومت نے خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت روکنے کے لیے قانون سازی کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ وفاقی حکومت اس مسئلے کا ٹھوس اور مستقل حل تلاش کرے گی تاکہ آئیندہ کوئی ریاستی ادارہ اپنی آئینی حدود سے باہر نکلنے کی کوشش نہ کرے۔ غیر قانونی مداخلت کی وجہ سے ریاستی ادارے مضبوط مستحکم اور فعال نہیں ہو سکے- عالمی رینکنگ میں پاکستان کے ریاستی اداروں کا مقام بہت نیچے ہے۔ تحریک انصاف نے انکوائری کمیشن کے حوالے سے حکومت کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا اور مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ خود اس سلسلے میں عدالتی کارروائی کرے۔