وزیراعظم میاں شہبازشریف اور چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قیادت میں عدالت عظمیٰ کے سینئر موسٹ جج جسٹس منصور علی شاہ کی ملاقات میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ فاضل ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو مشترکہ طور پر بھجوائے مراسلے پر مفصل غور اور تمام قانونی اور آئینی پہلوﺅں کا جائزہ لینے کے بعد متذکرہ مراسلہ کی بنیاد پر حکومتی سطح پر انکوائری کمیشن تشکیل دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ یہ انکوائری کمیشن اچھی شہرت اور ساکھ کے حامل اعلیٰ عدلیہ کے کسی ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں تشکیل دیا جائیگا۔ اس سے قبل چیف جسٹس سپریم کورٹ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کی فل کورٹ میں بھی متذکرہ مراسلہ پر دو روز تک غور کیا گیا اور فل کورٹ نے اس معاملہ میں چیف جسٹس کی وزیراعظم سے ملاقات پر اتفاق کیا چنانچہ عدالت عظمیٰ میں وزیراعظم اور چیف جسٹس کے مابین سپریم کورٹ کی بلڈنگ میں ملاقات ہوئی۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان بھی اس میٹنگ میں شریک ہوئے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے معاملہ کی سنگینی کی بنیاد پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے متعلقہ فاضل ججوں کو بھی فل کورٹ میں فرداً فرداً مدعو کیا اور فل کورٹ کے جاری کردہ اعلامیہ میں باور کرایا گیا کہ عدلیہ میں ایگزیکٹو کی مداخلت بطور ادارہ برداشت نہیں کی جائیگی۔ دوسری جانب وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل ججز خط لکھ کر مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے یا نہیں‘ اس کا فیصلہ ہم انکوائری کمیشن پر چھوڑتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز میں ماضی کے معاملات بھی شامل ہونگے۔ چیف جسٹس سے میٹنگ کے دوران وزیراعظم میاں شہبازشریف نے اس امر کی یقین دہانی کرائی کہ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری پر کوئی قدغن نہیں آنے دی جائیگی۔ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں ہائیکورٹ ججز کے خط کے علاوہ سپریم کورٹ میں زیرالتواءٹیکسز کے مقدمات پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات کے بعد بھی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی فل کورٹ میٹنگ ہوئی جس میں فاضل چیف جسٹس نے یہ امر واضح کیا کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت انکوائری کمیشن وفاقی کابینہ کی جانب سے تشکیل دیا جائیگا جس کے ٹی او آرز بھی کابینہ ہی طے کریگی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ فاضل ججوں کی جانب سے مشترکہ طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوائے مراسلہ میں عدلیہ کے معاملات میں مبینہ مداخلت کا الزام عائد کرتے ہوئے اس پر غور کیلئے جوڈیشل کنونشن بلانے کا کہا گیا تھا۔ مراسلے میں فاضل متعلقہ ججوں کے کام میں مبینہ مداخلت کے بعض واقعات کی نشاندہی بھی کی گئی۔ فاضل چیف جسٹس سپریم کورٹ نے اس معاملہ پر آئین کی دفعہ 184 شق 3 کے تحت عدالت عظمیٰ کی فل کورٹ میٹنگ بلانے کا فیصلہ کیا۔ وزیراعظم شہبازشریف کے بقول جوڈیشری آزادانہ کام کرتی ہے۔ چیف جسٹس اس ادارے کے آئینی سربراہ ہیں‘ ججز کے خط لکھنے سے کوئی آئینی بحران پیدا نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے معاملہ کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے فوری ایکشن لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ باتیں آج سے 13 ماہ پہلے ہو جاتیں جب اس طرح کے معاملات اعلیٰ عدلیہ کے پیش نظر تھے۔ ایسے معاملات پر مٹی ڈالنے کی بجائے انہیں شفاف طریقے سے منطقی انجام تک پہنچایا جانا چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جتنی قربانیاں افواج پاکستان نے دی ہیں ہمیں انکی قدر کرنی چاہیے اور ہمیشہ ان پر انگلی نہیں اٹھانی چاہیے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ فاضل ججوں کی جانب سے عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کے حوالے سے یہ مراسلہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر موسٹ جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کیخلاف سپریم کورٹ میں ساڑھے چار سال سے زیرالتواءان کی اپیل کے فیصلہ کے بعد بھجوایا گیا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی اسلام آباد ہائیکورٹ بار میں تقریر کے دوران بعض اداروں کی جانب سے عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔ انکی اس تقریر کی بنیاد پر ان کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس دائر کیا گیا جس میں اس وقت کی سپریم جوڈیشل کونسل نے ان کیخلاف وفاقی حکومت اور اس وقت کے آرمی چیف کی جانب سے بھجوائے محض مراسلات کی بنیاد پر انہیں انکے منصب سے برطرف کرنے کی سفارش کی جس کی بنیاد پر صدر مملکت نے انکی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا۔ انہوں نے اس فیصلہ کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جس کی ساڑھے چار سال تک سماعت کی نوبت ہی نہ آسکی۔ دو ہفتے قبل چیف جسٹس قاضی فائز عسیٰ نے اس اپیل کی سماعت کیلئے اپنی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا خصوصی بنچ تشکیل دیا جس نے سماعت کے بعد صدارتی نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیکر جسٹس شوکت صدیقی کا جج کا سٹیٹس انکی پنشن اور مراعات سمیت بحال کر دیا۔ جسٹس شوکت صدیقی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ فاضل ججوں کے بھجوائے مراسلہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ مراسلہ انکے الزامات کی ہی تصدیق ہے تاہم انکے معاملہ پر اس وقت اعلیٰ عدلیہ بشمول اسلام آباد ہائیکورٹ کے کسی بھی فاضل جج نے انکے حق میں آواز نہیں اٹھائی تھی۔ یقیناً اسی تناظر میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے بھجوائے مراسلہ پر عدلیہ اور بارز کے پلیٹ فارموں پر مختلف آراءکا اظہار ہو رہا ہے اور یہ سوال بھی اٹھ رہے ہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے متعلقہ فاضل ججوں نے تمام آئینی اور قانونی پہلوﺅں سے آگاہ ہونے کے باوجود اپنے مراسلہ میں سپریم جوڈیشل کونسل کا کنونشن بلانے کا ہی کیوں تقاضا کیا جبکہ اس ادارے کا آئینی اختیار صرف کسی حاضر سروس جج کیخلاف دائر ریفرنس کی تحقیقات اور اس پر اپنی رائے دینے کا ہے اور عدالتی امور میں کسی کی مداخلت کے کسی الزام کی انکوائری کرنا سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں آتا۔ اس تناظر میں متذکرہ مراسلے کے حوالے سے کسی سیاسی ایجنڈے پر بھی آراءسامنے آرہی ہیں جبکہ ایک سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا سیل کی جانب سے اس معاملہ کو سب سے زیادہ اچھالا گیا اور اسی جماعت کی قیادت نے وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات میں انکوائری کمیشن کی تشکیل سے متعلق کئے گئے فیصلہ کو مسترد کیا۔
یقیناً یہ سارے معاملات اب انکوائری کمیشن کے پیش نظر ہونگے جو انتظامیہ اور عدلیہ کی قیادتوں کے اتفاق رائے سے تشکیل دیا جا رہا ہے۔ اس فیصلہ سےیہ امر تو واضح ہو گیا کہ عدلیہ کے معاملات میں کسی مداخلت کی انکوائری سپریم جوڈیشل کونسل کے ہرگز دائرہ اختیار میں نہیں۔ اب یقیناً اس حوالے سے ماضی کے معاملات بھی زیربحث آئیں گے جس میں تحریک استقلال کے سربراہ ائرمارشل اصغر خان کی سیاسی امور میں ایجنسیوں کی مداخلت کیخلاف سپریم کورٹ میں دائر کی گئی آئینی درخواست کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ اس کیس میں حکومت کی جانب سے یہ دوٹوک جواب دیا گیا تھا کہ کسی ریاستی ادارے کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا قطعاً اختیار حاصل نہیں۔ ہم ان سطور میں یہی عرض کرتے رہے ہیں کہ اگر تمام ریاستی ادارے آئین میں متعین کردہ اپنی ذمہ داریوں اور حدود وقیود کے فریم ورک میں رہ کر فرائض سرانجام دیں تو سسٹم میں کسی بگاڑ کی نوبت ہی نہ آئے۔ خدا کرے کہ اب اس کیس کی بنیاد پر ہی ادارہ جاتی سطح پر صفیں درست ہو جائیں۔ سسٹم کی بقاءو استحکام کا آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی عملداری پر ہی دارومدار ہے۔