آغا سید حامد علی شاہ موسوی
امام اہلسنت امام احمد بن حنبل ؒ کے بقول حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے فضائل و کمالات میں کوئی ان کا ہمسر نہیں تاریخ گواہ ہے کہ علی ابن ابی طالب کو کعبہ میں ولادت کی سعادت ملی ، انہوں نے اس وقت تک آنکھیں نہ کھولیں جب تک خاتم الانبیاء محمد مصطفی ؐنے انہیں اپنی آغوش میں لے کر اپنا لعاب دہن نہ چوسایا، بچپن میں ہی اسلام کے پہلے مصدق بنے ،نبی کریم ؐ نے انہیں نفس رسول اور دنیا و آخرت میں اپنا بھائی کہا،علی ابن ابی طالبؓ ہر لحظہ ہر گھڑی جنگ کے ہر میدان اور امور مملکت میں ہادی برحق ؐ محمد مصطفیؐ کے ساتھ ساتھ رہے، انہیں اللہ کی طرف سے لا فتی الا علی لا سیف الا ذوالفقارکا خطاب ملا ،جنہیں رسول کے دوش پر کھڑا ہو کر بت گرانے کا اعزاز ملا، بدر خندق خیبر حنین ہر جنگ میں اسلام کو فتح دلوائی ، جنہیں خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کا سرتاج بننے کا شرف حاصل ہوا ان کی شادی کا اہتمام عرش پر بھی کیا گیا،آپ کوحسنین کریمین جیسے جنت کے فرزندان عطا ہوئے ، آپ من کنت مولاہ فھذا علی مولاکے تحت قیامت تک سلسلہ ولایت کا سرچشمہ ٹھہرے ، جنہیں شب ہجرت بستر رسول ؐ پر سونے اور نبی کا امین بننے کا شرف ملا، جن کے چہرے کو دیکھنا عبادت قرار دیا گیا، جنہیں جنگ خندق میں کل ایمان کہا گیالیکن تاریخ گواہ ہے اتنے بڑے انعامات و اعزازات کے باوجود کسی موقع پر حضرت علی ابن ابی طالبؓ نے اپنی کامیابی و کامرانی کا دعوی اور اعلان نہ کیا ماسوائے اس وقت جب ایک شقی و بدبخت نے مسجد کوفہ میںاخ الرسول ؐ علی ابن ابی طالبؓ کے سر پر دوران نماز زہر میں بجھی تلوار کا وار کردیااور خطیب منبر سلونی علی ابن ابی طالب پکار اٹھے ’’بسم اللہ و باللہ و علی ملت رسول اللہ فزت و رب الکعبۃ‘‘۔ علی کامیاب ہو گیا۔
گویا مسجد میں شہادت پا کر عظمتوں کے اس سفر کی تکمیل ہو رہی تھی علی ابن ابی طالب اپنے آخری امتحان میں بھی کامیابی کی ندا دے کر قاتل کی شکست کا اعلان کررہے تھے ۔سیدنا علیؓ تو مومنوں کے سردار تھے جنہیںاپنی شہادت کا بے چینی سے انتظار تھا جس کی خبر انہیں اللہ کے حبیب محمد مصطفی ؐنے دے رکھی تھی ۔امالی شیخ صدوق ، عیون اخبار الرضا سمیت دیگر کتب احادیث میں امام علی رضا اور انکے آباء کی سند سے روایت کردہ خطبہ شعبانیہ میں نبی کریم ؐ نے جہاں رمضان کے فضائل بیان فرمائے ہیں اور مسلمانوں کو اس میں محرمات سے بچنے کی تلقین فرمائی وہیں اسی ماہ مقدس میں امیر المومنین شیر خدا علی المرتضی کی شہادت کی خبر دیتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا۔
’’اے علی اس مہینے میں تمہارا خون بہایا جائے گا گویا میں تمہاری شہادت کے منظر کو دیکھ رہا ہوں ، درحالیکہ تم اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھنے میں مشغول ہوں گے ، اس وقت شقی اولین وآخرین قاتل ناقہ صالح ، تمہارے فرق پر ایک وار کریگا جس سے تمہاری ریش اور چہرہ خون سے ترہو جائے گا‘‘اس کے بعد پیغمبر اکرم نے فرمایا: اے علی جس نے تمہیں قتل کیا گویا اس نے مجھے قتل کیا اور جس نے تمہارے ساتھ بغض ودشمنی کی درحقیقت اس نے مجھ سے دشمنی کی ہے اور جو کوئی تمہیں ناسزا کہے گویا اس نے مجھے ناسزا کہا ہے کیونکہ تم مجھ سے ہو اور میرے نفس کی مانند ہو تمہاری روح میری روح سے ہے اور تمہاری طینت وفطرت میری فطرت سے ہے۔ ‘‘
سنن نسائی اور مسند احمد بن حنبل میں بھی حضرت عمار یاسر ؓ سے روایت ہے کہ غزوہ ذی العشیرۃ کے موقع پر نبی کریم محمد مصطفی ؐنے حضرت علی ابن ابی طالبؓ سے فرمایا اے ابو تراب کیا میں تمہیں دو بد بخت ترین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ہم سب نے عرض کی ہاں یا رسول اللہ ؐ! آپ نے فرمایا پہلا شخص قوم ثمود کا احیمر تھا جس نے حضرت صالح کی اونٹنی کی ٹانگیں کاٹی تھیں اور دوسرا شخص وہ ہے جو اے علیؓ تمہارے سرپر وار کرے گایہاں تک کہ تمہاری داڑھی خون سے تر ہو جائے گی۔
19رمضان40ھ کی شب فاتح خیبر حضرت علی ابن بی طالب نے اپنی بیٹی حضرت ام کلثوم کے یہاں افطارکیا افطار کے بعد شب بھر عبادت میں مصروف رہے اور بار بار آسمان کی دیکھتے اور فرماتے واللہ یہ وہی شب ہے جس کی رسول اکرم ؐ نے خبر دی تھی ۔جب آپ نما ز صبح کیلئے مسجد میں تشریف لے جانے لگے تو بطخوں نے راستہ روکا اور اپنی زبان میں نوحہ پڑھنے لگیں لیکن آپ رسول اکرم ؐ کی پیش گوئی کو یاد کرتے رہے اور بطخوں کی چیخ و پکار کا مطلب سمجھنے کے باوجود اپنا دامن چھڑا کر مسجد کی جانب چل پڑے۔ ولیوں کا سردار علی کمال جرأت اور ثبات ے ساتھ شہادت کی منزل کی جانب روانہ ہوئے ،نماز شروع کی اور سجدہ خالق میں سر جھکایاتو ابن ملجم نے سر اقدس پر وار کیا۔ادھرعلی المرتضیؓ کے سر پر تلوار لگی ادھر زمین وآسمان کے درمیان صدا بلند ہوئی کہ ’’خدا کی قسم ہدایت کے ارکان ٹوٹ گئے ،پرہیزگاری کے نشان مٹ گئے ،خدا کی مضبوط رسی ٹوٹ گئی ،محمد مصطفی ؐ کے ابن عم علی المرتضیؓ قتل کردیئے گئے انہیں بدترین شقی نے قتل کیا‘‘
مورخین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ کو شدت عدالت کی وجہ سے شہید کر دیا گیا کیونکہ حضرت علی ہی وہ ذات تھی جنہیں رسول خداؐ نے سب سے بہترین انصاف کرنے والا قرار دیا تھا۔ جارج جرواق جیسے عیسائی دانشوروں نے سیرت علی کا مطالعہ کرکے انہیں ’’صوت العدالۃ الانسانیہ’’یعنی علی ندائے عدالت انسانی جیسی شہرہ آفاق کتاب لکھ کر خراج پیش کیا ۔اسی عدالت کے سبب خلیفۃ المسلمین نے گواہی دی تھی کہ اگر علی ابن ابی طالب نہ ہوتے تو عمر خطاب ؓ ہلاک ہو جاتا۔ آج بھی اگر دیکھا جائے تو دنیا عدل کے فقدان کی وجہ سے ہی بحران در بحران کا شکار ہے ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ خون میں نہائے ہوئے تھے لیکن اعلائے کلمۃ الحق پھر بھی ان ترجیح دی تھی اسی لئے آپ نے حضرت امام حسن المجتبیٰؓ اورتمام خاندان کو یہ وصیت فرمائی کہ’’میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا ،دنیا کے خواہشمند نہ ہونا اگرچہ وہ تمہارے پیچھے لگے اور دنیا کی کسی ایسی چیز پر نہ کڑھنا جو تم سے روک لی جائے جو کہنا حق کیلئے کہنا اور جو کرنا ثواب کیلئے کرنا ،ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہنا۔میں تم کو اپنی تمام اولاد کو اپنے کنبہ کو اور جن جن تک میرا پیغام پہنچے سب کو وصیت کرتا ہوں اللہ سے ڈرتے رہنا اپنے معاملات درست اور آپس کے تعلقات سلجھائے رکھنا کیونکہ میں نے تمہارے نانارسول اللہ ؐ کو فرماتے سنا ہے کہ آپس کی کشیدگیوں کو مٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے۔۔۔۔ ۔۔تم کو لازم ہے کہ آپس میں میل ملاپ رکھنا اور ایک دوسرے کی اعانت کرنا اور خبردار ایک دوسرے کی طرف سے پیٹھ پھرنے اور تعلقات توڑنے سے پر ہیز کرنا ،نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے کبھی ہاتھ نہ اٹھانا ورنہ بد کردار تم پر مسلط ہو جائیں گے۔ پھر دعا مانگو گے تو قبول نہ ہوگی !۔۔۔اے عبد المطلب کے بیٹو ایسا نہ ہو کہ تم ’امیر المومنین قتل ہوگئے‘ کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کردو۔ دیکھو اگر میں اس ضرب سے شہید ہو جاؤں تومیرے بدلے صرف میرا قاتل قتل کیا جائے اور اسے ایک ضرب کے بدلے ایک ہی ضرب لگانا اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ ’خبردار کسی کے بھی ہاتھ پیر نہ کاٹو،اگرچہ کاٹنے والا کتا ہی ہو‘۔
اور پھر 21رمضان کووہ ساعت آن پہنچی جب مومنوں کے امیر اسلام کی جنگوں کے علمبردار صاحب ذوالفقار حضرت علی کرم اللہ وجہہ شہادت کی منزل پر فائز ہوگئے۔کعبے میں آنے والا مسجد میں چل بسا ہے آغاز کربلا ہے زینبؓ کاسرکھلاہے حضرت علی ابن ابی طالبؓ کی شہادت کے بعد خلافت راشدہ کے منصب پر فائز ہونے والے نواسہ رسول حضرت امام حسنؓ نے حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کے اصرار پر مسجد کوفہ میں تشریف لا کر جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کا ایک ایک لفظ عظمت حیدرکرار بیان کررہا ہے ۔امام حسنؓ نے خدا کی حمد و ثنا اور رسول خدا ؐپر درودو سلام بھیجنے کے بعد فرمایا آج کی رات ایسی ہستی ہمارے درمیان سے رخصت ہوئی ہے کہ اولین و آخرین میں کوئی عمل پر ان سے سبقت نہ لے جا سکا،وہ (علی) رسول اللہ ؐ کے ساتھ مل کر جہاد کرتے ،آنحضور ؐکا دفاع کرتے ،آنحضرت ؐ انہیں جب اپنا علم دے کر بھیجتے تو جبرائیل دائیں طرف اور میکائیل بائیں طرف سے ان کی حفاظت فرماتے اور وہ اس وقت تک واپس نہیں آتے تھے جب تک اللہ ان کے ہاتھوں پر فتح نہیں دے دیتا تھا آپ کی شہادت اسی رات ہوئی ہے جب حضرت عیسیؑ کو آسمان پر اٹھایا گیا تھا اس رات حضرت موسی ؑ کے وصی حضرت یوشع بن نون کی رحلت ہوئی ۔آپ نے مال دنیا میں صرف سات سو درہم چھوڑے ہیں جس سے آپ اپنے گھر والوں کیلئے غلام خریدنا چاہتے تھے ۔یہ کہہ کر امام حسن کی آواز رندھ گئی اور آپ گریہ کرنے لگے اور تمام صحابہ کبار اور عاشقان نبی ؐو علی شیر خدا ؓکی شہادت پر گریہ کرنے لگے ۔21رمضان 40ہجری کو شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک 63سال تھی۔آپ کے فرزندان نے کوفہ کے نزدیک غری کے قصبے میں آپ کی تدفین فرمائی جو آج کل نجف اشرف کے نام سے مشہور ہے ۔اور آج بھی علم و حکمت کا سرچشمہ ہے ۔بقول اقبالؒ
ذاتِ اْو دروازۂ شہرِ علوم زیرِ فرمانش حجاز و چین و روم
ان کی ذات شہر علوم کا دروازہ ہے اور ان کے فرمان کے زیر تابع حجاز و چین و روم یعنی ساری دنیا ہے۔