فتح مکہ: آپ کے بدترین دشمنوں کیلئے بھی امان کا دن

Mar 30, 2024

صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی

صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی 
قریش مکہ نے جب حدیبیہ کے صلح نامہ کی کھلی خلاف ورزی کی تو سرکا ر دوعالم  نے صحابہ کرام ؓ کو جہاد کی تیاری کا حکم عطا فرمایا دس رمضان المبارک کو حضور پاک ﷺ دس ہزار کا لشکر لے کر مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے راستہ میں دو ہزار افراد اور شامل ہو گئے مکہ سے ایک منزل کے فاصلے پر مقام مرا الظہران پہنچ کر لشکر نے پڑائو ڈالا سرکار ﷺ نے حکم فرمایا کہ ہر شخص اپنا الگ چولہا جلائے جب بارہ ہزار صحابہ کرام نے اپنا الگ الگ چولہا جلایا تو مرا الظہران کے وسیع وعریض میدانوں میں دور دراز تک آگ ہی آگ نظر آنے لگی قریش نے تحقیق خبر کے لئے ابوسفیان ،بدیل بن ورقا اور حکیم بن حزام کو بھیجا یہ تینوں تحقیق کیلئے نکلے اور مرا الظہران میں جلتی ہوئی آگ دیکھ کر حیران رہ گئے ابو سفیان نے کہا کہ بنی خزاعہ کا قبیلہ اتنا تو نہیں کہ یہ وسیع میدان بھر جائے حضرت عبا س ؓ ابو سفیان کو لے کر بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ !میں نے ابو سفیان کو پناہ دی ہے ابو سفیان نے اسلامی لشکر کے ہر قبیلے کو بڑی آن بان سے ہتھیاروں سے مسلح سازوسامان سے بھر آتے دیکھا قبیلہ غفار ،قبیلہ جہینہ، قبیلہ سعد بن ہذیم اور سلیم جیسے جنگجو قبائل عرب لشکر اسلام میں شامل تھے آخر میں سرکار دوعالم ﷺ اپنے جانثاروں کے جھرمٹ میں تشریف لا رہے تھے اس روحانی منظر اور نورانی ماحول کا ابوسفیان کے دل پر گہرا اثر پڑا ۲۰ رمضان المبارک ۸ ہجری پیر کے دن حضور پاک ﷺ مقام کدیٰ سے گزرتے ہوئے بالائی جانب سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور حضرت زبیر ؓ کو مقام کدا سے داخل ہونے اور حضرت خالد بن ولید ؓ کو مقام کدا سے داخل ہونے کا حکم فرمایا ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تاکید فرمائی کہ لڑنے میں پہل نہ کی جائے اور جو شخص تم سے لڑنے کے درپہ ہو صرف اسی سے مقابلہ کرنا اس طرح مسلمان تین راستوں سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے کہیں مقابلہ کی نوبت آئی سوائے مقام کدا کے جہاں سے حضرت خالد بن ولید داخل ہوئے بنو بکر،بنو حارث،بنو ہذیل اور قریش کے چند قبائل مقابلہ کے لئے تیار تھے حضرت خالد کے آتے ہی ان لوگو ں نے حملہ کیا آپ نے ان کے حملے کا دفاعی جواب دیتے ہوئے ان کا مقابلہ کیا اور کفار کو شکست ہوئی نتیجہ میں دو مسلمان شہید ہوئے اور بنو بکر کے بیس آدمی ہلاک ہوئے کفار مکہ جو اعلان نبوت سے لیکر ہجرت تک اور ہجرت سے لیکر صلح حدیبیہ تک سرکار دوعالم ؐ اور مسلمانوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتے رہے ایذا رسانی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا ۔انھوں نے حضور ؐ کو شہید کرنے کی بار ہا ناپاک سازشیں کیں قبائل عرب کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔ ان سب  دشمنوں اور خون کے پیاسوں پر جب غلبہ حاصل ہوا تو رحمت  دوعالمؐ نے سب خطاکاروں کو معاف فرماکر رحمت و الفت سے لبریز فرمان عالی شان جاری کیا اور اعلان عام فرمایا کہ آج تم سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی تم لوگ آزاد ہو آج تم پر رحم اور مہربانی کا دن ہے فتح مکہ کے موقع پر نبی پاکؐ نے دنیاکے تمام بادشاہوں سربراہان مملکت اور ارباب سلطنت کیلئے عظیم مثال قائم فرمائی اقتدارحاصل کرنے والوں کو آفاقی پیغام حق دیا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے اس کے لئے امان ہے جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کر دے اس کے لئے امان ہے جوشخص خانہ کعبہ میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے جوشخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کے لئے امان ہے جو شخص ام ہانی کے گھر داخل ہو جائے اس کے لئے امان ہے امان کا یہ اعلان اگرچہ تمام لوگوں کے لئے عام تھا لیکن چند افراد اس سے مشتسنیٰ تھے انہوںنے حضور کی شان میں گستاخی کی اس لئے وہ قابل گردن زنی ہو چکے تھے اس لئے انکے قتل کا حکم دیا گیا ایک گستاخ کے بار ے میں خود سرکار ﷺ نے حکم فرمایا اسے قتل کر ڈالو اگرچہ یہ خانہ کعبہ کے غلاف سے چمٹا ہویہاں غور کیا جائے کہ عین حرم شریف میں قتل کا حکم دیا گیا جب کہ کعبہ کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے کہ جو شخص اس میں داخل ہوا وہ امن والا ہے( سورۃ آل عمران ۹۷)ہر شخص خانہ کعبہ میں اخل ہوتے ہی امن و سلامتی پا لیتا ہے اگر کوئی حرم شریف میں اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لے تو اس کو حق نہیں کہ حرم شریف میں اس کو تکلیف پہنچائے لیکن ان افراد نے بارگاہ نبوت ﷺ میں گستاخی کر کے ایسے جرم کا انتخاب کیا کہ زمین کا کوئی خطہ انکی پناہ گاہ نہیں بن سکتا یہاں تک کہ وہ حرم کعبہ میں غلاف کعبہ میں کیوں نہ چمٹے ہوں تب بھی ان کو امان نہیں ان گستاخوں کا انجام یہ تھا کہ صرف ان کو قتل کر دیا جائے ان میں عبدالعزی بن خطل کعبہ کی دیواروں میں چھپ گیا اس کو حضرت سعید بن مخزومی ؓ نے قتل کیا حویرث بن نقید اور حارث بن ہشام کو حضرت علی ؓ نے قتل کیا مقیس بن صبابہ کو نمیلہ بن عبداللہ ؓ نے قتل کیا حضور ﷺ اپنی مبارک اونٹی پر سوار ہو کر مسجد حرم میں داخل ہوئے حضرت اسامہ ؓ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے حضرت بلال ؓ ااور خانہ کعبہ کے کلید بردار حضرت عثمان بن طلحہؓ آپ کے ساتھ تھے آپ نے مسجد حرام میں اونٹنی بیٹھا ئی اور کعبتہ اللہ کا طواف فرمایا خانہ کعبہ میں داخل ہوتے ہوئے یہ آیت پڑھی کہ ترجمہ حق آیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹنے والا ہے مشرکوں نے خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت بٹھا رکھے تھے حضور اکرم ﷺنے مسجد حرام اور خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک فرما دیا حضرت بلال ؓ نے کعبہ کی چھت پر چڑھ کر ظہر کی اذان دی اس طرح مکہ مکرمہ کے کفر آلود ماحول کو اذان بلال نے نور اسلام سے منور کیا اور اس کی فضائوں میں پرچم اسلام لہرانے لگا فتح مکہ کے دن ابلیس لعین نے غم و رنج کی وجہ سے ایک زبردست چیخ ماری جس کی وجہ سے اس کی پوری اولاداس کے پاس جمع ہوگئی اس نے کہا کہ اب تم اس بات سے مایوس ہو جائو کہ امت محمدیہ کو شرک کی طرف لوٹائو گے یعنی آک کے بعد امت محمدیہ ﷺ میں شرک نہیں ہو سکتا فتح مکہ کے بعد حضور ﷺ نے پندرہ روز وہاں قیام فرمایا اور روانہ ہونے سے قبل حضرت عتاب بن اسید ؓ کو مکہ کا والئی مقرر فرمایا اور مسلمانوں کی تعلیم کے لئے حضرت معاذبن جبل ؓ کو منتخب فرمایا اللہ اس دن کے صدقے ہماری انفرادی واجتماعی مشکلات کو آسان فرمائے آمین 
تحریر!صاحب زادہ ذیشان کلیم معصومی 

مزیدخبریں