خبر آئی ہے کہ ایوان ِ صدر کی چار میں سے ایک بکری ڈائریا (اسہال) کا شکار ہوگئی اور شہر کا بہترین ” ڈنگر ڈاکٹر“ علاج کے لیے طلب کر لیا گےا ہے۔۔۔ چلئے اس خبر سے صدر کے ناقدین کو کچھ حوصلہ تو ہوا کہ صدراتی محل میں کوئی ” بھیڑ “ نہیں رہتی البتہ صدر کی بکریاں ضرور موجود ہیں ۔۔۔ جس طرح ایوان صدر ایک ” حساس“ جگہ ہے اس کی بکریاں بھی خاصی ”حساس“ واقع ہوئی ہیں، اب دیکھئے ناں ! جس روز صدر کی آنکھ کے تارے، ایک وزیر نے عدالت ِ عالیہ میں پیش ہو نا تھا عین اسی روز ایوان ِ صدر کی بکری ” اسہال“ میں مبتلا ہو ئے بغیر نہ رہ سکی ۔ حالانکہ وزیر صاحب اپنے ہمراہ کئی وزیروں کو ناشتہ کراکے لے گئے تھے ۔ یہ تو شکر ہے کہ اس روز وزیر ِموصوف ہنستے، مسکراتے، مبارک باد وصول کرتے ، عدالت سے نکلے ورنہ دیگر تین بکریاں بھی اسہال کا شکار ہو جاتیں ۔۔۔ ویسے ” قیاسی پنڈتوں“ کا خیال ہے کہ وزیر قانون دعائیں دیں ان ” کالے بکروں “ کو جو ایوان ِ صدر“ کی ” بلائیں “ ٹالنے کے لیے قربان کیے جاتے ہیں ۔۔۔ یہ الگ بات کہ ایک بلا ٹلتی ہے تو اس سے بڑی بلا سامنے آ جاتی ہے ۔ صدر زرداری کے ناقدین کا خیال ہے کہ صدر کی ان ساری” بلاﺅں“ کا سبب ، ان کے ارد گرد ، کالی بھیڑوں کی موجودگی ہے ۔ اگر صدر کالے بکروں کی بجائے ، اپنے آس پاس کی دو چار کا لی بھیڑوں کا ” صدقہ “ دے دیں تو وہ تمام مصائب سے نجات حاصل کر سکتے ہیں ۔ مگر آصف زرداری اپنی بکریوں کے ساتھ ساتھ اپنی ان ” سفید بھیڑوں “ کو بھی بے حد عزیز خیال کرتے ہیں اور کسی صورت انہیں قربان نہیں کرنا چاہتے ۔۔۔ گوےا !
میرے یا ر نوں مندا نہ بولیں .................. تے بھانویں میری جان کڈھ لے
یا دش بخیر ! کبھی ایوان صدر کے ”کتے “ مشہور تھے ۔ سابق صدر بکریوں کی بجائے کتوں کو ” عزیز “ رکھتے تھے ۔ آصف زرداری بھی بکریوں سے قبل گھوڑوں سے محبت کرتے تھے ۔ گویا ان دنوں صدر اور وزیر اعظم ہاﺅسز میں کتے اور گھوڑے رہا کرتے تھے مگر نجانے کیوں اس مرتبہ آصف زرداری نے گھوڑوں کی بجائے ” بکریاں “ پال لی ہیں، ممکن ہے اختےارات اور ذمہ دارےوں کا بوجھ وزیر اعظم کو سونپنے کے بعد صدر خود کو ” ویہلا“ اور ” فارغ“ محسوس کرتے ہوں اور” غم نہ داری بُز بخر“ کے مقولے پر عمل پیرا ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مہاتما گاندھی کے فلسفے کو پرکھنے کی ٹھان لی ہو آخر گاندھی بھی ” بکری “ کو بے حد” عزیز“ رکھتے تھے ۔ البتہ وہ ایک ہی بکری پر گزارہ کرتے تھے۔ مگر ہمارے صدر نے ” چار بکریاں “ صدارتی محل میں رکھی ہوئی ہیں ۔ گاندھی جی چرخہ بھی چلاتے تھے صدر زرداری نے ” چرخہ“ رکھا ہوا ہے یا نہیں ہم کچھ کہہ نہیں سکتے ،اسکے بارے میں فرحت اللہ بابر زیا دہ بہتر بیان کر سکتے ہیں ۔ چلئے گاندھی کی بکری اگر تاریخ کا حصہ ہے تو ہمارے صدر کی بکریاں بھی میڈیا پر ” اِن “ ہو چکی ہیں ۔ اگلے روز ان کی بکری کے اسہال میں مبتلا ہونے کی خبر ” بریکنگ نیوز“ کا درجہ لے گئی ۔۔۔ بکری کی بیماری پر پی پی کی کئی” بکریاں “ بھی پریشان ہیں اور رات دن ایوان صدر کی بکری کی صحت ےابی کے لیے دعا گو ہیں ۔ بعض ٹی وی چینلز کے تجزیہ کار پی پی کی” بکریوں“ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہو ئے ہیں ۔ اب بکریوں کی ” میں میں “ پر بھی اگر تنقید ہو نے لگے تو وہ افسوس کا مقام ہے ۔ بکریوں کا کام یہی ہے اس پر زیا دہ کان نہیں دھرنے چاہیئں۔۔۔ اور پی پی کی ”بکریوں“ کو بھی اپنی اوقات میں رہنا چاہیے ۔۔۔ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں کوئی” بکری“ ” اول فول “ بکنے پر مقدمہ درج کرنے کے بعد دھر نہ لی جا ئے۔۔۔ ۔ صدر کی حمایت میں انہیں بولنے کا حق حاصل ہے لیکن سنجیدہ اور تاریخی حقائق اور معاملات پر ”زبان درازی“ انہیں مہنگی پڑ سکتی ہے ۔ کاش موجودہ حکومت کالی بھیڑوں اور بکریوں میں امتےاز کر سکتی اور این آر او کی کالی بھیڑوں سے نجات حاصل کر کے ، امریکہ کے سامنے شیر بن کر کھڑی ہو جاتی ۔۔۔ مگر نہ جانے کیوں ہم امریکہ کے سامنے ” بکری “ ہو جاتے ہیں اس وقت ہمیں ایک بزرگ کی بات یا د آ رہی ہے بلا تبصرہ ملاحظہ کیجئے
” بکری پتے کھاتی ہے اور کھال اتروا بیٹھتی ہے اور جو بکری کھا جاتے ہیں ان کا کیا ہو گا “ (ختم شد)
میرے یا ر نوں مندا نہ بولیں .................. تے بھانویں میری جان کڈھ لے
یا دش بخیر ! کبھی ایوان صدر کے ”کتے “ مشہور تھے ۔ سابق صدر بکریوں کی بجائے کتوں کو ” عزیز “ رکھتے تھے ۔ آصف زرداری بھی بکریوں سے قبل گھوڑوں سے محبت کرتے تھے ۔ گویا ان دنوں صدر اور وزیر اعظم ہاﺅسز میں کتے اور گھوڑے رہا کرتے تھے مگر نجانے کیوں اس مرتبہ آصف زرداری نے گھوڑوں کی بجائے ” بکریاں “ پال لی ہیں، ممکن ہے اختےارات اور ذمہ دارےوں کا بوجھ وزیر اعظم کو سونپنے کے بعد صدر خود کو ” ویہلا“ اور ” فارغ“ محسوس کرتے ہوں اور” غم نہ داری بُز بخر“ کے مقولے پر عمل پیرا ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مہاتما گاندھی کے فلسفے کو پرکھنے کی ٹھان لی ہو آخر گاندھی بھی ” بکری “ کو بے حد” عزیز“ رکھتے تھے ۔ البتہ وہ ایک ہی بکری پر گزارہ کرتے تھے۔ مگر ہمارے صدر نے ” چار بکریاں “ صدارتی محل میں رکھی ہوئی ہیں ۔ گاندھی جی چرخہ بھی چلاتے تھے صدر زرداری نے ” چرخہ“ رکھا ہوا ہے یا نہیں ہم کچھ کہہ نہیں سکتے ،اسکے بارے میں فرحت اللہ بابر زیا دہ بہتر بیان کر سکتے ہیں ۔ چلئے گاندھی کی بکری اگر تاریخ کا حصہ ہے تو ہمارے صدر کی بکریاں بھی میڈیا پر ” اِن “ ہو چکی ہیں ۔ اگلے روز ان کی بکری کے اسہال میں مبتلا ہونے کی خبر ” بریکنگ نیوز“ کا درجہ لے گئی ۔۔۔ بکری کی بیماری پر پی پی کی کئی” بکریاں “ بھی پریشان ہیں اور رات دن ایوان صدر کی بکری کی صحت ےابی کے لیے دعا گو ہیں ۔ بعض ٹی وی چینلز کے تجزیہ کار پی پی کی” بکریوں“ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہو ئے ہیں ۔ اب بکریوں کی ” میں میں “ پر بھی اگر تنقید ہو نے لگے تو وہ افسوس کا مقام ہے ۔ بکریوں کا کام یہی ہے اس پر زیا دہ کان نہیں دھرنے چاہیئں۔۔۔ اور پی پی کی ”بکریوں“ کو بھی اپنی اوقات میں رہنا چاہیے ۔۔۔ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں کوئی” بکری“ ” اول فول “ بکنے پر مقدمہ درج کرنے کے بعد دھر نہ لی جا ئے۔۔۔ ۔ صدر کی حمایت میں انہیں بولنے کا حق حاصل ہے لیکن سنجیدہ اور تاریخی حقائق اور معاملات پر ”زبان درازی“ انہیں مہنگی پڑ سکتی ہے ۔ کاش موجودہ حکومت کالی بھیڑوں اور بکریوں میں امتےاز کر سکتی اور این آر او کی کالی بھیڑوں سے نجات حاصل کر کے ، امریکہ کے سامنے شیر بن کر کھڑی ہو جاتی ۔۔۔ مگر نہ جانے کیوں ہم امریکہ کے سامنے ” بکری “ ہو جاتے ہیں اس وقت ہمیں ایک بزرگ کی بات یا د آ رہی ہے بلا تبصرہ ملاحظہ کیجئے
” بکری پتے کھاتی ہے اور کھال اتروا بیٹھتی ہے اور جو بکری کھا جاتے ہیں ان کا کیا ہو گا “ (ختم شد)