امریکہ کا طریقِ واردات

May 30, 2011

سفیر یاؤ جنگ
ڈاکٹر سعید احمد ملک
ماضی قریب کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ امریکہ نے کبھی کسی ایسے ملک پر حملہ نہیں کیا جہاں اسے معمولی سے نقصان کا بھی اندیشہ ہو۔ یہ امریکہ کا وتیرہ ہے کہ جو ملک اسے ذرا بھی آنکھیں دکھائے تھوڑی سی دھمکیاں دینے کے بعد کنی کترا جاتا ہے۔ ایران کی مثال سامنے ہے۔ بڑے طمطراق کے ساتھ سمندری بیڑا لے چلا تھا مگر ایران کی معمولی سی دھمکی سے ایسا غائب ہوا گویا گدھے کے سر سے سینگ ۔ اسکے بعد اپنی لونڈی یو این او کے ذریعے پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دیتا رہا مگر جب ایران نے اس کو بھی اپنی جوتی کی نوک پر بھی لکھنے کی پرواہ نہ کی تو دم سادھ کر بیٹھ گیا مگر امریکہ بڑا عیار دشمن ہے نہ وہ غافل ہوتا ہے اور نہ ہی اسلام دشمنی کو بھولتا ہے بلکہ اپنی حکمت عملی تبدیل کر لیتا ہے۔ اسکے سیاسی اور فوجی تجزیہ نگار اور زیادہ غور و خوض اور عرق ریزی سے کام شروع کر دیتے ہیں۔ اسکے بعد اس ملک میں جاسوسوں کی فوج روانہ کی جاتی ہے جن میں سے اکثر ایڈوائزر، پروفیسر، بزنس مین اور مشیروں کی صورت میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ یہ تمام ناصح حکمران طبقہ کے ساتھ انتہائی مشفقانہ اور ہمدردانہ انداز اختیار کرتے ہیں حتیٰ کہ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ واقعی وہ ان کے خیر خواہ ہیں۔ کچھ ان مشیروں کی میٹھی زبان، کچھ ان کے پیچھے امریکہ کی منافقانہ قوت، کچھ حکمران طبقہ کی کرسی کے ساتھ چمٹ جانے کی عادت اور دولت سمیٹنے کی ہوس، وجہ جو بھی ہو بالآخر یہ ایڈوائزر آہستہ آہستہ ان کے دل و دماغ پر چھا جاتے ہیں بلکہ یوں کہئے کہ دانستہ یا نادانستہ طور پر وہ اپنی سوچ بدلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اسکے بعد نچلے درجے کے اشرافیہ کے ذہنوں کو مسلوب کرنے کےلئے دام کی وسعت کو بڑھا دیا جاتا ہے اور بتدریج بیورو کریٹس، سکیورٹی، پولیس، فوج حتیٰ کہ کالجوں کے پروفیسر کا بھی برین واش کر دیا جاتا ہے یا انہیں اپنے پے رول پر رکھ لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد تیسرے مرحلے پر عمل درآمد ہوتا ہے یعنی عوام میں انتشار پھیلانا امریکہ کےلئے یہ بہت آسان ہے۔ اسلئے کہ بالتحقیق وہ جان چکے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑوانا بہت آسان ہے۔ اس کےلئے وہ مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں مثلاً سُنی عالم کا روپ دھار کر شیعہ عبادت گاہوں یا جلوس میں بم پھینکنا (جیسا کہ بغداد میں کیا) یا طالبان کا بھیس بدل کر مزاروں میں بم پھینکنا اور نسلی و لسانی اور علاقائی عصبیت کو پانے تنخواہ یافتہ سیاستدانوں کے ذریعے ہَوا دینا۔ یہ وہ کام ہیں جو وہ ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں اسلئے کہ انہیں معلوم ہے کہ کوئی انہیں پکڑنے کی جرا¿ت نہیں کر سکتا۔ بغداد میں دو امریکی ایک جلوس پر بم پھینکنے کی نیت سے جا رہے ہیں وہ بمع ثبوت پکڑے گئے مگر بغیر رپورٹ درج کئے انہیں پولیس سٹیشن ہی سے رہا کر دیا گیا۔ پاکستان میں کئی امریکی جاسوس پکڑے گئے مگر انہیں فوراً چھوڑ دیا گیا اور عوام کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ اگر ریمنڈ ڈیوس پکڑا بھی گیا اور عوام کو اس کی خبر بھی مل گئی تو پھر کیا فرق پڑا۔ بہرحال اسے چھوڑ ہی دیا گیا۔ جب امریکہ کو یقین ہو جاتا ہے کہ اب بیشتر فوجی قوت کو، حکمرانوں کو، وزراءاور افسران کو بے اثر کر دیا گیا ہے تو پھر اس ملک کے ہمسایہ ممالک کو بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ ملاتا ہے۔ یہ تمام احتیاطی تدابیر کرنے کے بعد کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر کے اس ملک پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ کبھی یہ بہانہ بڑے پیمانے پر تباہ کن ہتھیاروں کا ہوتا ہے اور کبھی نائن الیون کا۔ یو این او کی اسے پرواہ نہیں کہ وہ امریکہ کے گھر کی لونڈی ہے۔ نہ عراق میں ہتھیار برآمد ہوئے نہ نائن الیون کا ثبوت ملا مگر اس بدمست ہاتھی نے عراق کو بھی تباہ کر دیا اور افغانستان کو بھی۔ ان ناجائز اور غاصبانہ حملوں میں اس کے کچھ چمچے قسم کے ممالک بھی شامل ہو جاتے ہیں کہ شاید لوٹ کا کچھ حصہ انہیں بھی مل جائے خواہ ان کے عوام ان حملوں کے خلاف ہی ہوں۔ اگرچہ ان چمچہ ممالک کو اُن کے اَن داتا امریکہ نے دیا کچھ نہیں مگر انہیں اتنی تسلی ضرور ہے کہ چلو مسلمان ملک برباد تو ہوئے۔ عراق میں امریکہ نے یہی حکمت عملی اختیار کی تھی۔ سب سے پہلے عربوں اور ایرانیوں کو کئی سال تک جنگ میں الجھائے رکھا، پھر کردوں اور عراقیوں میں پھوٹ ڈلوائی اور پھر عربوں کو ہی آپس میں لڑوا دیا۔ جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اور امریکی جاسوسوں کی حکمت عملی سے عراقیوں کے متعدد گروہوں کا امریکہ پر اعتماد قائم ہو گیا تو پھر شیعہ سُنی کا قضیہ کھڑا کر کے عراقیوں کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا۔ اس دوران خود ”بھس میں چنگاری ڈال جمالو دور کھڑی“ کے مصداق مزے لیتا رہا۔ جب دونوں لڑ لڑ کر برباد ہو گئے تو پھر عراق میں امریکہ نے اپنے زر خرید غلام پیدا کئے حتیٰ کہ وہاں کی ائر پورٹ کے سکیورٹی افسران اور سپاہی تک امریکہ کے پے رول پر ہو گئے، انہیں پانچ اور تین ہزار ڈالر تنخواہ دی جاتی۔ اس کے باوجود لینڈ ہونے سے پہلے بزدل امریکیوں نے ائر پورٹ کے تین چکر لگائے یہ جاننے کےلئے کہ ان پر جوابی حملہ ہوتا ہے یا ہیں، یا یہ معلوم کرنے کےلئے عراقی مسلمان عراق کا غدار اور امریکہ کا غلام بنا ہے یا نہیں۔ افسوس کہ وہ غلام بن چکے تھے اور یوں عراقیوں کے مقدر میں امریکہ کی غلامی لکھی گئی۔ امریکہ ہمیشہ سافٹ ٹارگٹ چُنتا ہے جہاں اس کی سبکی نہ ہو اور جہاں اس کی انٹیلی جنس کے مطابق فتح یقینی ہو۔ تاہم اس سے پہلے وہ قوم فروش اور ضمیر فروش غداروں کی لسٹ تیار کرتا ہے، ان میں بادشاہت (صدارت) کا شوق پروان چڑھاتا ہے۔ جب یہ شوق نقطہ عروج پر پہنچ جاتا ہے تو یہی قوم فروش افراد امریکی حکام کے تلوے چاٹ کر ”شاہ“ بننے کی درخواست کرتے ہیں جو اُن کا اَن داتا قبول فرماتا ہے اور پھر یہ نام و نمود اور کرسی کے بھوکے بے غیرت حکمران اپنے ان داتا کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ناچ کر ملتِ اسلامیہ کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ افغانستان کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ کیا پاکستان میں بھی ایسا ہو چکا ہے؟ اس کا جواب میں قاری کی ذہانت پر چھوڑتا ہوں۔ ہمارے ارباب اقتدار امریکہ سے بھیک میں ملی سنہری چادر اوڑھے، عوام کے جذبات سے بے خبر، ذلت و غلامی کے گہرے کھڈ میں محوِ خواب ہیں....ع
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
شاید آپ نے نوٹ کیا ہو کہ امریکہ ہمیشہ دوست، ہمدرد و غمگسار کا روپ دھار کر وارد ہوتا ہے۔ کبھی وہ گندم کے بھرے جہاز بھیجتا ہے اور کبھی ڈالروں کا امریکی ایڈ کی شکل میں ظہور ہوتا ہے۔ ایک پکے منافق کی طرح وہ نجات دہندہ اور ہمدم کا کردار اس قدر ہوشیاری کے ساتھ ادا کرتا ہے کہ بڑے کائیاں گرگانِ سیاست بھی اسکے دام میں اسطرح الجھ کر بے دست و پا ہو جاتے ہیں جس طرح مکڑی کے جال میں پتنگا۔ یہی وہ موقع ہے جب امریکہ پوری قوم کا خون پینا شروع کر دیتا ہے مگر اس کا غلام ”بادشاہ“ امریکہ کے سحر سے مسحور یا آقا کے غیظ و غضب سے مجبور ہو کر اسے اس خون آشامی کی کھلی چھٹی دے دیتا ہے۔امریکہ کی اشیرباد حاصل کرنے کےلئے حکمران چند ڈالروں کے عوض اپنے عوام کو بھی بیچنا شروع کر دیتے ہیں مگر امریکہ پھر بھی خوش نہیں ہوتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس خون آشام دوست نما دشمن کے چہرے کا نقاب کہیں کہیں سے سرکنا شروع ہو جاتا ہے اور امریکی جاسوس دن دہاڑے ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں دو مسلمانوں کو قتل کر کے نہایت کروفر سے سپیشل جہاز میں امریکہ روانہ ہو جاتا ہے اور جاتے وقت زبانِ حال سے کہہ جاتا ہے کہ پاکستانی مسلمان کی قیمت ایک کتے کے خون سے زیادہ نہیں! افسوس، قوم تو غیرت مند ہے مگر جن کو ووٹ دے کر انہوں نے آگے بھیجا ہے ان کی غیرت کو امریکی بھیڑیا بھنبھوڑ کر لے گیا۔ کاش ہمارے حکمران تاریخ سے سبق سیکھ سکتے۔ کیا ایسٹ انڈیا کمپنی نے بالکل اسی طرح مغل بادشاہ کو بے دست و پا نہیں کر دیا تھا؟ تاجر بن کر آئے تھے ملک چھین لیا۔ یہ دوست بن کر آئے تھے آقا بن جائیں گے بلکہ بن چکے ہیں مگر عوام کے نہیں صرف مسند نشینوں کے!
نہ سمجھو گے تو مٹ جا¶ گے اے ”پاکستاں“ والوں
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
قوم بیدار بلکہ بیزار ہو چکی ہے۔ انقلاب انقلاب کا نعرہ ہر کس و ناکس کے دل میں مچل رہا ہے۔ کاش کہ حکمران تاریخ سے کچھ سبق سیکھ لیتے۔
مزیدخبریں