متحد، مضبوط اور یک زباں

May 30, 2011

جاوید قریشی
مملکتِ پاکستان خطرات مےں گھری ہوئی ہے۔ ہر نئے دن کے ساتھ خطرات کی سنگےنی مےں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ پولےس اور سےکورٹی فورسز پر وطن دشمن دہشت گردوں کے حملوں مےں شدت اور قوت پےدا ہو گئی ہے۔ دو مئی کے اےبٹ آباد آپرےشن نے ہماری دفاعی اور عسکری کمزورےوں کو واضح کر دےا۔ یہ واقعہ اتنا بڑا تھا کہ اسے نظر انداز کر دےنا کسی طور ممکن نہ تھا۔ حکومت نے اس واقعہ کے مضمرات پر سےر حاصل بحث کے واسطے پارلےمنٹ کے دونوں اےوانوں کا ”ان کےمرہ“ اجلاس طلب کےا اور عسکری قےادت کو مدعو کےا کہ وہ پارلےمان کے ممبران کو برےف کرےں اور ا ن کے ذہن مےں اُبھرنے والے سوالوں کا جواب دےں۔ پارلےمان کی تارےخ کا طوےل ترےن اجلاس ہوا جس مےں فضائےہ ، بحرےہ اور آرمی کی قےادت نے شرکت کی۔ I.S.I کے سربراہ جنرل پاشا I.S.I کی طرف سے جواب دہی کے لئے موجود تھے۔ جنرل پاشا نے اجلاس مےں I.S.I کی غلطی اورکوتاہی کی بنا پر پارلےمان اور پوری قوم سے معافی مانگی اور بتاےا کہ انہوں نے فوج کے سربراہ جنرل کےانی کو اپنا استعفیٰ پےش کر دےا تھا جو منظور نہےں ہوا۔ انہوں نے مزےد کہا کہ اگر وزےراعظم ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کرےں تو وہ پارلےمان سے سےدھے اپنے گھر جانے کو تےار ہےں۔ فضائےہ نے وجوہ بےان کےں کہ فضائےہ کے رےڈار کےونکر حملہ آور ہےلی کاپٹرز کا سراغ نہ لگا سکے۔ ان کا بےان تھا کہ ےہ ہےلی کاپٹرز (Stealth Technology) سے بنے ہوئے تھے جو رےڈارز کو چکر دے کر بچ نکل جانے کی صلاحےت رکھتے ہےں۔ عسکری قےادت نے پارلےمان سے مطالبہ کےا کہ وہ اےک جامع پالےسی بنائےں جس پر ملک کی سےکورٹی فورسز عمل درآمدکی پابند ہوں گی۔ پارلےمان نے اےک خود مختار کمےشن کے قےام کا فےصلہ کےا جو تمام واقعات کا جائزہ لے کر پارلےمان کو سفارشات دے گا کہ کہاں کہاں کوتاہی ہوئی۔ کون کون ذمہ دار ہے اور کس کس کو کےا سزا ملنی چاہئے؟ لےکن افسوس کا مقام ہے کہ ابھی تک اس آزاد کمےشن کا قےام عمل مےں نہےں آ سکا اور نہ ہی معاملہ مےں کچھ پےش رفت ہوئی۔ ابھی ہم اےبٹ آباد مےں لگے زخموں کو چاٹ رہے تھے کہ کراچی مےں بحرےہ کے مرکز P.N.S مہران پر دہشت گردوں کا اےک اور شدےد حملہ ہوا جس مےں دہشت گردوں نے نےوی کے Air arm کو مفلوج کر کے رکھ دےا۔ اس حملہ مےں C3 Orion کے دو جہاز اور اےک ہےلی کاپٹر تباہ ہوئے۔ اورےن جہاز بہت قےمتی اور بہت فعال قسم کے جہاز ہےں جو سمندری نگرانی اور آبدوزوں کے خلاف جنگ مےں بہت مفےد ثابت ہوتے ہےں۔ پاکستان کو اےک اور فائدہ جو ان جہازوں کا تھا ےہ تھا کہ بھارت کے پاس ابھی ےہ جہاز نہےں ہےں۔ بھارتی بحرےہ کے عہدےداروں نے اپنے ملک کی نےوی کو پاکستان کے اس نئے جہاز کی افادےت اوران کی وجہ سے بھارت کو لاحق خطرات سے آگاہ کےا تھا۔ ان جہازوں کی تباہی کے علاوہ جو جانی نقصان ہماری نےوی ، رےنجرز اور S.S.G کا ہوا اس کا حساب کےا جانا تو ممکن ہی نہےں۔ نےوی کے شہدا مےں اےک لیفٹےننٹ ےاسر تھے۔ تےن بہنوں کے اس اکلوتے بھائی کی شادی چار ماہ بعد ہونے والی تھی۔ 26 سالہ اس نوجوان نے جب ےہ دےکھا کہ دشمن قوم کے اثاثوں کی طرف جارحانہ پےشقدمی کر رہا ہے تو سےنہ تان کے دشمن کی گولےوں کی بوچھاڑ مےںکھڑا ہو گےا اور ےوں نہاےت جرا¿ت، شجاعت اور مجاہدانہ شان سے جام شہادت نوش کےا۔ اس کے علاوہ رےنجرز اور نےوی کے کوئی اےک درجن مزےد جانباز تھے جنھوں نے وطن کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کےا۔
مہران پر حملہ آور وں کی تعداد کتنی تھی؟ اس کے بارے مےں ےقےن سے ابھی تک کچھ نہےں کہا جا سکتا۔ حکومت کی طرف سے واحد بےان ےا پرےس برےفنگ جو دی گئی وہ اےک تو پاکستان کے انتھک وزےر داخلہ رحمان ملک کی طرف سے تھی اور دوسری نےوی کے سربراہ کی جانب سے۔ لےکن دونوں کی باتےں سن کے جی ےہ چاہا کہ کاش ےہ دونوں بھی خاموش رہتے تو کہےں بہتر تھا۔ رحمان ملک صاحب کو بولنے کا بہت شوق ہے اور اس شوق مےں وہ اےسی اےسی باتےں کہہ جاتے ہےں جو سراسر غلط ہوتی ہےں ےا جن کا حقائق سے دور کا تعلق بھی نہےں ہوتا۔ اگر وزےر داخلہ کو علم نہےں تھا کہ حملہ آوروں کی تعداد کتنی تھی تو خاموش رہتے، لےکن ملک صاحب کو ےہ بات ثابت کرنا بھی تو ضروری تھا کہ وزےر داخلہ کو ئی بے خبر انسان نہےں، سو انہوں نے فرما دےا کہ تےن حملہ آور مارے گئے ، چوتھے کی لاش اےک عمارت کا ملبہ ہٹنے سے مل جائے گی البتہ دو حملہ آوروں کو فرار ہوتے دےکھا گےا۔ ےہ بات بھی ےقےن سے نہےںکہی جا سکتی کہ وہ دہشت گرد اپنی کوشش مےں کامےاب ہو ئے ےا نہےں۔ اتفاق دےکھئے کہ وزےر داخلہ کی پرےس برےفنگ کے بعد جو اےف آئی آر درج کی گئی اس مےں فرار ہونے والے حملہ آوروں کی تعداد آٹھ بتائی گئی (ےہ لوگ , 4 6 ےا 8 تھے اس قدر مسلح تھے کہ انہوں نے عساکر پاکستان کو 16گھنٹے تک مصروف رکھا اور اپنے قرےب نہ آنے دےا) وزےر داخلہ کی اےک اور بات جو بُری لگی ےہ تھی کہ وہ حملہ آوروں کے حلےوں کا حوالہ دےتے ہوئے انہےں (Star Trek) کے کرداروں کی ےونےفارم سے مماثلت ظاہر کر رہے تھے۔ تمسخر اور مذاق کا بھی موقعہ اور مناسبت معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔ اس پہ بحرےہ کے سربراہ کی گہر افشانی کہ بےس پر اس حملہ مےں کوئی سےکورٹی lapse نہےں ہوا۔کس شان و شوکت سے بےش قےمت کار مےں وہ پرےس کانفرنس مےں تشرےف لائے اور کےا باتےں کےں۔ عاصمہ جہانگےر نے تو بحرےہ کے سربراہ کی برطرفی کا مطالبہ بھی کر دےا ہے۔ دکھ کی بات ےہ ہے کہ قوم انتہائی سوگ اور پرےشانی کے عالم مےں ڈوبی ہوئی ہے۔ اےک ہزےمت کے بعد دوسری ہزےمت سے دوچار لےکن حکومت کو جےسے سانپ سونگھ گےا ہو۔ کوئی حرکت نہےں، کوئی بےان نہےں۔ قوم کو حوصلہ دلانے والی کوئی تقرےر نہےں۔ اےسا لگتا تھا کہ ےہ ملک بغےر کسی حکومت کے چل رہا ہے۔ نہ وزےر اعظم کا کوئی پتہ نہ صدر مملکت کا کہےں نشان۔
دراصل اگر ضلع کی سےاست کی اہلےت رکھنے والے لوگوں کے حوالے قومی اہمےت کے معاملات کر دئیے جائےں تو ےہی نتےجہ نکلتا ہے۔ بدقسمتی سے تمام سےاسی مےدان مےں اےک اےسا نام اےک اےسا فرد آج نظر نہےں آتا جو قےادت کی ذمہ داری سنبھالنے کی اہلےت رکھتا ہو۔ ادھر معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مےڈےا نے فےصلہ کر لےا ہے کہ قوم کے واحد ادارے جو ملکی سلامتی کا ذمہ دار ہے پر تنقےد اس طرح سے کی جائے کہ وہ قوم کے تعاون اور سرپرستی سے محروم داخلی اور خارجی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تنہا نظر آئے۔ کوئی فوج، کوئی سپاہ، کوئی عسکری قوت داخلی اور خارجی دشمنوں کا مقابلہ بغےر تعاون اور سرپرستی کے نہےں کر سکتی۔ خدا کے واسطے اس فوج کو بے آبرو نہ کےجئے۔ انہےں حوصلے اور ہمت کی ضرورت ہے۔ تنقےد جہاں ضروری ہو ضرور ہونی چاہئے لےکن تنقےد کرتے وقت ےہ خےال رہے کہ ےہ دشمن کی نہےں اپنی ہی فوج ہے۔ تنقےد اگر نہ ہو گی تو کمزورےوں کا پتہ نہےں چلے گا ۔ پھر نا اہل افراد سے چھٹکارا کےسے حاصل کےا جائے گا ، لےکن تنقےد اور تضحےک کے درمےان فرق اچھی طرح ذہن مےں رہنا چاہئے۔ دشمن تو اس ملک مےں پاک فوج کو discredit کر کے ےہ ثابت کر نے کے در پے ہے کہ اس فوج مےں اپنے اےٹمی اثاثوں کے تحفظ کی اہلےت نہےں ہے تاکہ ملک کو اس کے اےٹمی اثاثوں سے محروم کر دےا جائے۔ آخر امرےکہ نے اقوام متحدہ سے وہ رےزولےوشن بلا مقصد تو منظور نہےں کرائی تھی کہ جس مےں کہا گےا تھا کہ اگر کوئی ملک اپنے اےٹمی اثاثوں کے تحفظ کی اہلےت نہ رکھتا ہو تو اقوام متحدہ اس کے تحفظ کا اہتمام کرے گی۔ اقوام متحدہ کی بجائے اگر رےاست ہائے متحدہ امرےکہ کے الفاظ استعمال کئے جائےں تو بات صاف سمجھ مےں آ جاتی ہے۔
قوم اور پاک فوج کو اےک مضبوط قومی پالےسی کی ضرورت ہے جو صرف پارلےمان اور حکومت ہی فراہم کر سکتی ہے۔ اس فوج نے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دئےے ہےں۔ےہ با صلاحےت جانفروشوں کی فوج ہے۔ صرف مضبوط حکمتِ عملی اور پالسےی درکار ہے۔ بحث بہت پہلے ختم ہو جانی چاہئے تھی کہ ےہ جنگ ہماری جنگ ہے بھی ےا نہےں۔ جو کوئی ہمےں نقصان پہنچانے کے درپے ہو ہمارا دشمن ہے اور قوم کو پوری قوت سے اس کا مقابلہ کر کے اسے نےست و نابود کر دےنے کے لئے متحد ہو جانا چاہئے۔ ہَوا کا رُخ بدل رہا ہے۔ برطانےہ کے وزےراعظم ڈےوڈ کےمرون تک نے تسلےم کےا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف اس جنگ مےں پاکستان کو سب سے زےادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ امرےکی صدر کے ساتھ اےک پرےس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”پاکستان کو تنہا چھوڑنے کی نہےں اس کی امداد دو چند کر دےنے کی ضرورت ہے اور جو پاکستان کا دشمن ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔“ اغےار کے منہ سے اےسی باتےں سننا اچھا لگتا ہے۔کاش اپنے بھی سب لوگ متحد ہو کر ےک زبان اس بات کا اعلان کرےں کہ جو پاکستان کا دشمن ہے پوری قوم کا دشمن ہے۔
مزیدخبریں